پچھلے ہفتے پاکستان کے ٹی وی چینلز پر خبروں میں پاکستان کے چیف جسٹس سمیت کئی ججز صاحبان اور دیگر معروف ماہرینِ قانون کی تقریروں کی جھلکیاں دیکھیں اور سنیں۔ وکیل رہنما علی احمد کرد اور موجودہ صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی تقریری جھلکیاں بھی دکھائی گئیں۔ پاکستان میں اب یہ کوئی نئی بات نہیں کہ معزز جج صاحبان پبلک فورم پر آتے اور خطاب بھی کرتے نظر آتے ہیں۔ بات مزید آگے بڑھانے سے پہلے ایک واقعہ سنائوں۔ غالباً 2013ء کی بات ہے، دسمبر کا مہینہ تھا۔ میں کراچی گیا ہوا تھا۔ ایک مذاکرے میں شرکت اور کچھ کہنے کا موقع ملا۔ سٹیج پر ایک سینیٹر صاحب، ایک سابق وفاقی وزیر اور سابق چیف جسٹس سعید الزماں صاحب بھی تشریف رکھتے تھے۔ مجھے کہیں جانا تھا، اس لیے منتظمین نے مجھے اظہارِ خیال کے لیے جلدی بلوالیا۔ جب میں جانے لگا تو جسٹس سعید الزماں صدیقی نے پوچھا کہ ’’تم شہر میں کب تک ہو؟‘‘ میں نے بتایا کہ ’’دو دن اور قیام رہے گا۔‘‘ اس پر انہوں نے دوسرے دن گھر ملنے کو کہا۔ میں حسن امام صدیقی کے ہمراہ وقتِ مقررہ پر ان کے دفتر میں گیا۔ بہت تفصیلی ملاقات ہوئی، بہت سارے موضوعات زیر بحث آئے۔ ایک موقع پر میں نے جسٹس صاحب سے کہا کہ امریکا میں عام لوگوں کو تو پتا ہی نہیں چلتا کہ سپریم کورٹ کے ججز کون ہیں اور ہمیں تو میڈیا پر چیف جسٹس کو بھی دیکھنے کا موقع نہیں ملتا۔ یہ پاکستان کے ججز اتنا خبروں میں کیوں رہتے ہیں؟ جسٹس صاحب زور سے ہنسے، کہنے لگے ’’جب میں چیف جسٹس تھا، اکثر صبح کی سیر کے لیے پارک میں جاتا تھا، لوگ پہچانتے بھی نہیں تھے، اب تو ہر روز ٹی وی پر کوریج ہوتی ہے۔‘‘
اب جو میں نے چیف جسٹس گلزار احمد کی تقریر کی جھلکیاں دیکھیں، تو انگشتِ بدنداں رہ گیا کہ ان سے پہلے وکلا رہنما علی احمد کرد نے انتہائی جذباتی تقریر کرتے ہوئے نہ صرف عدلیہ، بلکہ معزز جج صاحبان کے بارے میں بھی سخت ریمارکس دیئے، جس پر چیف جسٹس سخت غصّے میں تھے اور انہوں نے براہِ راست علی احمد کرد پر ناراضگی کا اظہار کردیا۔ یہ اس تقریر کا ذکر ہے جو لاہور میں معروف وکیل اور انسانی حقوق کی چیمپئن عاصمہ جہانگیر مرحومہ کی یاد میں منعقد ہوا تھا۔ علی احمد کرد صاحب کی عدلیہ اور ججز پر تنقید سے ماحول کشیدہ ہوگیا اور جس پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون صاحب نے بھی اپنی تقریر میں ناراضگی کا اظہار کیا کہ ایسی تقریب جہاں بہت معزز ہستیاں تشریف رکھتی تھیں، ایسی تقریر نہیں ہونی چاہیے تھی۔ یہ اور بات ہے کہ خود جج صاحبان کو بھی عدالتی نظام کو درست کرنا چاہیے تاکہ کسی کے ساتھ نا انصافی نہ ہو۔ ایک ٹی وی ٹاک شو میں سپریم کورٹ بار کے صدر احسن بھون نے مجیب الرحمٰن شامی صاحب کو بتایا کہ انہوں نے چیف جسٹس کو ایک ملاقات میں مشورہ دیا ہے کہ کم از کم سوموٹو نوٹس کے انداز کو بدلا جائے تاکہ انسانی حقوق پامال نہ ہوں۔
انہی دنوں ایک ٹی وی ٹاک شو میں جب میزبان صحافی اینکر نے بھی بھون صاحب کی توجہ دلاتے ہوئے انہیں بتایا کہ ہماری معزز عدلیہ فردِ واحد کے لیے تو سوموٹو نوٹسز لیتی ہے، مگر آج تک کسی جج نے بنگلہ دیش میں محصور ان پاکستانیوں کی واپسی کے مسئلے پر کوئی سوموٹو نہیں لیا، جو 49برس سے مخدوش کیمپوں میں ناگفتہ بہ حالت میں رہ رہے ہیں۔ تو نو منتخب صدر بار ایسوسی ایشن نے انہیں یقین دلایا کہ سوموٹو کو تو چھوڑیں، انسانی حقوق کے حوالے سے وہ خود بار ایسوسی ایشن کی بنیاد پر یہ پٹیشن لے کر سپریم کورٹ میں جائیں گے۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے کہا کہ ماضی میں ہم سے غلطیاں ہوئی ہیں، مگر آئندہ نہیں ہوں گی۔ سول سوسائٹی اور عدلیہ کو مل کر انصاف کے نظم کو بہتر کرنا ہوگا۔ احسن بھون نے کہا کہ ہماری عدلیہ بہت اچھی اور قابل ہے، مگر تاثر ٹھیک نہیں۔ سپریم کورٹ سو موٹو کیسز میں اپیل کا حق دے۔ اس حوالے سے رولز میں تبدیلی ہونی چاہیے۔ چیف جسٹس نے ایک اور بات کہی، جس کا ذکر ضروری ہے۔ کیوں کہ اس ضمن میں عدلیہ کے بارے میں عام لوگوں کی رائے کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم کسی کا دبائو قبول نہیں کرتے اور کوئی ہمیں اپنی مرضی سے فیصلے بھی نہیں کرسکتا۔ اس سلسلے میں عام لوگوں کا کہنا ہے اور اسی بات کو علی احمد کرد نے زور دے کر اپنی تقریر میں کہا تھا کہ بڑے بڑے لوگوں کے مقدمے فوراً سنے جاتے ہیں، جب کہ عام آدمی صبح سے شام تک عدلیہ کے چکر لگالگا کر تھک ہار کر شام کو نامراد اور دکھی دل کے ساتھ گھر چلا جاتا ہے۔
عاصمہ جہانگیر یادگاری کانفرنس کے دوسرے دن ایک ایسا واقعہ بھی ہوا، جسے بعض سیاسی حلقوں نے منتظمین کی فاش غلطی قرار دیا۔ کانفرنس کے ایک مقرر سابق وزیراعظم میاں نواز شریف تھے، جو عدلیہ کے فیصلوں کے تحت مجرم ہیں اور خصوصی رعایت کے تحت عدالت نے انہیں چند ہفتوں کے لیے ضمانت پر اس یقین دہانی پر چھوڑا تھا کہ وہ بیرونِ ملک علاج کرا کے واپس آ جائیں گے۔ تاہم، کئی مہینوں کے باوجود وہ واپس نہیں آئے، ان کی خرابی صحت کے بارے میں کوئی عذر بھی نہیں، اور وہ لندن میں صحت مند ہیں اور وہاں سے بیٹھ کر نہ صرف پاکستان کی سیاست کررہے ہیں، بلکہ ویڈیو کانفرنس سے خطابات بھی کررہے ہیں۔ اس کانفرنس میں ان کی تقریر بھی قابلِ ذکر ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس کانفرنس میں وہ معزز جج صاحبان موجود تھے جن کی عدالتوں نے انہیں مجرم قرار دے کر جیل بھیجا تھا اور وہ ججز بھی موجود تھے جنہوں نے کئی مہینے گزر جانے کے بعد بھی ان کی عدم واپسی پر ان کو مفرور بھی قرار دیا ہے۔ یقیناً یہ اعلیٰ عدالتوں کی توہین ہے۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کو چھوڑ بھی دیں تو نچلی عدالتوں کا حال تو کوئی دیکھے۔ اس قدر بدنظمی اور غیر قانونی اور غیر اخلاقی حالات ہیں کہ خدا کی پناہ۔ ہر شخص یہی کہتا ہے کہ اللہ کسی دشمن کو بھی کورٹ کچہری نہ لے جائے۔ علی احمد کرد نے یہ بھی کہا کہ عدلیہ میں تقسیم ہے اور بڑے عہدے پر چھوٹے لوگ بیٹھے ہیں۔ علی احمد کرد کا انداز تلخ تو ضرور تھا، مگر معزز جج صاحبان کو ان کی باتوں پر غور بھی کرنا چاہیے۔ اس کانفرنس میں چیف جسٹس، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس امیر بھٹی اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی متضاد تقریریں دیکھی جائیں، تو کہیں کہیں علی احمد کرد کی باتوں میں صداقت نظر آتی ہے۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ مگر عدلیہ کا بہت بڑا ہوتا ہے اور سربازار ایسے مناظرے اچھے نہیں ہوتے۔ کہا جاتا ہے کہ بار اور بنچ کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ بار اور بنچ کے درمیان مذاکرات ہوں۔ اگر عدلیہ سے لوگوں کو انصاف نہ ملے تو ملک کا کیا ہوگا؟ اس پر سب کو غور کرنا چاہیے۔