پشاور: عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اسفندیار ولی خان نے کہا ہے کہ ساڑھے چار سال تک ملک میں سیاسی بے چینی پیدا کرنے والے عوام کا اعتماد کھو چکے ہیں اور اب قوم کو مزید دلفریب نعروں سے نہیں بہکایا جا سکتا ۔ خطے میں دائمی امن کے قیام کی خاطر مرکزی و صوبائی حکومتوں سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کو ایک پیج پر متفق ہونا چاہئے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے ولی باغ چارسدہ میں کیا۔ اس موقع پرکرک سے تعلق رکھنے والے اے این پی کے دیرینہ سیاسی کارکن اختر نواز ایڈوکیٹ نے تمام رنجشیں بھلا کر اے این پی میں واپس شمولیت کا اعلان کیا ۔اسفندیار ولی خان نے اختر نواز ایڈوکیٹ کو پارٹی میں واپسی پر خوش آمدید کہا اور اسے خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ تمام پختونوں کو اپنے اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے اے این پی کے سرخ جھنڈے تلے متحد ہو جانا چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ قوم کو اتحاد و اتفاق کی جتنی ضرورت آج ہے وہ اس سے پہلے کبھی نہیں تھی۔
انہوں نے تمام پارٹی کارکنوں کو ہدایت کی کہ وہ جلد از جلد اپنے ارد گرد موجود ناراض کارکنوں کو منائیں اور پارٹی کا پیغام گھر گھر پہنچانے کیلئے انتھک محنت کریں ۔اسفندیار ولی خان نے مزید کہا کہ موجودہ دور میں جن مشکلات کا سامنا ہے ان کا مقابلہ صرف باہمی اتحاد و اتفاق سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ قوم کی نظریں اے این پی پر ہیں کیونکہ گزشتہ الیکشن میں دلفریب نعروں سے اقتدار میں آنے والوں نے عوام کیلئے کچھ نہیں کیا اس کے برعکس ملک میں صرف سیاسی بے چینی پیدا کی گئی اور ملک و قوم کو مسائل میں الجھائے رکھا گیا ۔آئندہ الیکشن میں عوام ان عناصر کا احتساب ووٹ کے ذریعے کریں گے ۔
گزشتہ روز پشاور حیات آباد میں ہونے والے خود کش دھماکے میں ایڈیشنل آئی جی اشرف نور کی شہادت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے شہید کو خراج عقیدت پیش کیا اور کہا کہ ملک میں دائمی امن کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے اور اس مقصد کیلئے مرکزی و صوبائی حکومتوں سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کو ایک پیج پر متفق ہونا ہو گا۔انہوں نے کہا کہ پائیدار امن کیلئے پاکستان اور افغانستان کو مشترکہ کوششیں کرنا چاہئیں ۔
انہوں نے دونوں ملکوں کے درمیان بد اعتمادی کی فضا کے خاتمے اور ماحول کو سازگار بنانے کیلئے ٹھوس اقدامات کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ پاکستان اور افغانستان کا امن ایک دوسرے سے مشروط ہے لہٰذا خطے میں دہشت گردی کے خاتمے اور امن کے قیام کیلئے دونوں ملکوں کو مربوط حکمت عملی اپنانی ہو گی اور اپنے مسائل مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کو ترجیح دینی چاہئے ۔