دوستو ہم بچپن میں نانی اماں سے جو کہانیاں سنتے تھے ان میں اکثر ایک شہزادے کا ذکر ہوتا تھا اور وہ شہزادہ ہمیشہ جیت بھی جاتا تھا ۔ایسے ہی ایک شہزادے سے آج میں آپ کو ملواتا ہوں جو پہاڑوں کا بیٹا تھا ،پہاڑ بھی وہ جن کی ہیبت بڑے بڑوں کو لرزا دیتے تھے لیکن جب ان کے دامن میں جھانک کے دیکھا جائے تو خوش رنگ پھول اٹکھیلیاں کرتے ہوئے سر سبز وادیوں کے ماتھے کا جھومر لگتے ہیں ،وہ وادیاں جہاں زندگی گیت گاتی اور خزاں ہو یا بہار دونوں دلکشی چودھویں کے چاند کی طرح پورے جوبن پہ نظر آتی ہے ۔جی جہاں میں بات کر رہا ہوں شہزادے حسن سد پارہ کی جو گلگت بلتستان کاشہزادہ ہے وہی حسن سدپارہ جس نے بنا کسی حکومتی امداد کے دنیا کی بلند تریں چوٹی ماوئنٹ ایورسٹ پہ تاقیامت سبز ہلالی پرچم کو لہرا دیا ۔
سد پارہ گائوں سے تعلق رکھنے والے حسن نے 1999 میں باقاعدہ کوہ پیمائی شروع کی تھی اور صرف آٹھ سال کے قلیل عرصے میں بنا آکسیجن کے پاکستان کی آتھ ہزار میٹر بلند چوٹیاں سر گئیں اور اس کے بعد خونی نانگا پربت کو بھی اپنے آہنی قدموں تلے روند دیا لیکن کینسر جیسے موذی مرض سے نہ لڑ سکا اور جان کی بازی ہار گیا شاید وہ یہ بازی جیت بھی جاتا اگر عمران خان سیاسی دھرنے دینے کے ساتھ ساتھ قومی ہیرو کو اپنے ہسپتال میں ایک بیڈ دے دیتے ۔
حسن سد پارہ اس جنگ سے جیت بھی جاتا اگر وزیرِاعظم اپنے علاج کے لئیے لندن جانے کے ساتھ ساتھ حسن کو لندن بھلے نہ لے جاتے بس اتفاق ہسپتال میں اس کا علاج کروا دیتے مگر ایسا کیوں ہوتا؟
حسن کا مرنا ایک بریکنگ نیوز تھا اس لئیے میڈیا اس کے مرنے پہ سرخ ہوا ،،اس کی بیماری کی خبر چلانے پہ ریٹنگ کب آنی تھی اور نہ ہی اس کی کوئی آف شور کمپنی تھی جو اس کے بارے دنیا کو بتایا جاتا وہ تو انا پرست پہاڑوں کا خوددار بیٹا تھا جو زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بڑے حوصلے سے جی رہا تھا ،،فیض صاحب نے کیا خوب تھا
جو رکے تو کوہِ گراں تھے ہم ،جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہِ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا
شاعری کی حد تک تو بات ٹھیک ہے لیکں کوہ پیمائی کے اسکول کا خواب دیکھنےوالی آنکھیں اب بے نور ہو چکی ہیں ،،،اس تحریر کو لکھتے ہوئے بہت سے ایسے ہیروز کے نام ذہن میں آ رہے ہیں جو کسمپرسی کے عالم میں اس دنیا سے چل بسے لیکن مجھے حسن سد پارہ کا قصور اس لئیے زیادہ لگ رہا ہے کہ ایک تو اس کا تعلق گلگت بلتستان ایسے خوبصورت علاقے سے ہے جو سب سے زیادہ سرچ ہوتا ہے سیاحت کے حوالے سے جہاں کی فضاوں میں وفا پرستی ہے اسی لئیے تمام عمر سبز ہلالی پرچم کو سر بلند رکھنے کا عزم حسن کے سینے میں دھڑکتا رہا،،وہ علاقے جنہیں سب سے زیادہ ترقی یافتہ ہونا چاہئیے تھا الٹا حکومت کی جانب سے ہمیشہ نظر انداز کیا گیا،خیر حسن کے اپنوں نے بھی اس سے وفا نہ کی گلگت بلتستان حکومت نے بھی اس کے علاج معالجے پہ توجہ نہ دی ،،،افسوس یہ مردِ کوہستانی نہ ہوتا کسی بیوروکریٹ،،سیاستدان،،جرنیل،،جاگیردار،،سرمایہ دار،،مافیا،،،کی اولاد ہوتا تو ایسے نہ مرتا ،،،