اسلام آباد: پنجاب میں انتخابات کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے ہیں کہ 90 دن سے زائد نگران حکومتیں نہیں رہ سکتیں۔ یہ آئین کی خلاف ورزی ہے۔
سپریم کورٹ میں پنجاب انتخابات سے متعلق نظرثانی کی درخواست پر سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنیچ کر رہا ہے ۔جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بھی بینچ کا حصہ ہیں۔ الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی دلائل دے رہے ہیں ۔چیف جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیئے کہ تیسرا دن ہے وکیل الیکشن کمیشن کے دلائل سن رہے ہیں،۔ ہمیں بتائیے کہ آپ کا اصل نقطہ کیا ہے؟
وکیل الیکشن کمیشن کاکہناتھا کہ آٹھ اکتوبر کی تاریخ حقائق کے مطابق دی تھی ۔جسٹس مینب اختر کاکہناتھا کہ آٹھ ستمبر کو الیکشن کمیشن مجھے کہے کہ اکتوبر میں الیکشن ممکن نہیں تو کیا ہوگا،الیکشن کمیشن دو سال کہتا رہے گا کہ انتخابات ممکن نہیں،انتخابات کروانا الیکشن کمیشن کا فرض ہے، صوابدید نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے خود کہا آئین کی روح جمہوریت ہے، کب تک انتخابات آگے کرکے جمہوریت قربان کرتے رہیں گے۔ تاریخ میں کئی مرتبہ جمہوریت قربان کی گئی، جب بھی جمہوریت کی قربانی دی گئی کئی سال نتایج بھگتے، عوام کو اپنی رائے کے اظہار کا موقع ملنا چاہیے۔ الیکشن کمیشن کا فیصلہ میں صرف وسائل نہ ہونے کا ذکر تھا۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کب کہے گا کہ اب بہت ہوگیا، انتخابات ہر صورت ہونگے، اب الیکشن کمیشن سیاسی بات کررہا ہے، بلوچستان کے بلدیاتی انتخابات میں ٹرن آوٹ ساٹھ فیصد تھا، سیکیورٹی خدشات کے باوجود بلوچستان کے عوام نے ووٹ ڈالا، انتخابات تاخیر کا شکار ہو تو منفی قوتیں اپنا اور لگاتی ہیں، بطور آئین کے محافظ عدالت کب تک خاموش رہے گی۔ آرٹیکل 224 کو سرد خانے میں کتنا عرصہ تک رکھ سکتے ہیں۔
وکیل الیکشن کمیشن کاکہناتھا کہ نو مئی کے واقعات سے الیکشن کمیشن کے خدشات درست ثابت ہوئے۔چیف جسٹس کاکہناتھا کہ عدالت نے خدشات کی نہیں آئین کے اصولوں کی بات کرنی ہے۔ جسٹس منیب اختر کاکہناتھا کہ عام انتخابات کا مطلب صرف قومی اسمبلی کا الیکشن نہیں ہوتا۔ ایک ساتھ انتخابات میں پانچ جنرل الیکشن ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم اور وزاء اعلی چھ ماہ بعد اسمبلیاں تحلیل کر دیں تو کمیشن کیا کرے گا ۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم اور وزاء اعلی کے پاس اسمبلی تحلیل کرنے کی ویٹو پاور ہے۔ وزیر اعظم اور وزیر اعلی جب چاہیں اسمبلیاں تحلیل کر سکتے ہیں، آئین کے اصولوں کو مدنظر رکھ کر بتائیں الیکشن کمیشن کا موقف کیا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن کاکہناتھا کہ الیکشن کمیشن فنڈز اور سیکورٹی کی عدم فراہمی کا بہانہ نہیں کرسکتا،کیا الیکشن کمیشن بااختیار نہیں ہے ۔وکیل الیکشن کمیشن کاکہناتھا کہ اپنے آئینی اختیارات سے نظر نہیں چرا سکتے۔
جسٹس اعجازالاحسن کاکہناتھا کہ آپ بتائیں 90دن کی نگران حکومت ساڑھے چار سال کیسے رہ سکتی ہے،آئین پر اسکی روح کے مطابق عمل کرنا ہوتاہے،وکیل الیکشن کمیشن کاکہناتھا کہ پنجاب اور کے پی کے دونوں صوبوں میں ہی اسمبلیاں تحلیل ہوئیں۔
جسٹس منیب اختر کاکہناتھا کہ سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کا پنجاب انتحابات کا فیصلہ چیلنج ہو اتھا،سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا اس پر آپ نظر ثانی پر دلائل دے رہے ہیں،آپ کہہ رہے ہیں کے پی کے کا اسمبلی بھی تحلیل ہوئی تھی۔
وکیل الیکشن کمیشن کاکہناتھا کہ میرے کہنے کا مطلب تھا کے پی اور پنجاب پورے ملک کا ستر فیصد ہیں ۔جسٹس منیب اختر کاکہناتھا کہ اگر بلوچستان اسمبلی وقت سے پہلے تحلیل ہو تو کیا اس پر آئین کا اطلاق نہیں ہوگا۔نشستیں جتنی بھی ہوں ہر اسمبلی کی اہمیت برابر ہے،حکومت جو بھی ہو شفاف انتخابات الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے،کیا الیکشن کمیشن کہہ سکتا منتحب حکومت کے ہوتے ہوئے الیکشن نہیں ہوں گے۔