اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ میں شیریں مزاری کی دوبارہ گرفتاری پر توہین عدالت کی سماعت میں عدالت نے آئی جی اسلام آباد کو 31 مئی کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا، تحریری جواب بھی جمع کرانے کا حکم دے دیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس میاں گل حسن نے کیس کی سماعت کی۔ ایمان مزاری اپنی وکیل زینب جنجوعہ کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئیں۔
دوران سماعت عدالت نے آئی جی اسلام آباد ڈاکٹر اکبر ناصر کی غیر موجودگی کو دیکھتے ہوئے حیرانی کا اظہار کیا۔ عدالت کی جانب سے سوال کیا گیا کہ آئی جی پولیس عدالت میں نہیں آئے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی جانب سے جواب دیا گیا کہ آئی جی صاحب بینچ ون کے سامنے ہیں، وہاں سے فارغ ہو کر تھوڑی دیر میں پہنچ جائیں گے۔
جس پر جسٹس میاں گل حسن نے ریمارکس دیے کہ یہ توہین عدالت کا کیس ہے آئی جی کو یہاں ہونا چاہئے تھا۔ عدالت کو پہلے دن بتا دیتے ریاست کی پوری مشینری کیوں ایکٹو ہے۔ شیریں مزاری کی گرفتاری کا تھری ایم پی او کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ جو کچھ بھی ہو رہا ہے یہ سب سیاست ہو رہی ہے ان کا مقدمات سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
جسٹس میاں گل حسن نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بادی النظر میں آئی جی نے ڈی سی راولپنڈی کے آرڈر کو اس عدالت کے حکم پر ترجیح دی ہے، ریاست پہلے بتا دیتی کہ شیریں مزاری کی گرفتاری کا نقص امن سے کوئی تعلق نہیں ۔ یہ سب عدالت کو پہلے بتا دیتے تو ہم کوئی اور کیس سن لیتے۔