٭… ملک لوٹ کر کھا گئے۔ لاہور ہائی کورٹ
٭… کالم لکھنے بیٹھا تو ملکی حالات و واقعات پے سوچتے سوچتے خیالوں کی ایسی دنیا میں جا پہنچا کہ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے اس دشت میں گھومتے گھومتے میرے پائوں زخمی ہو گئے ہوں مگر میں تنہا سچ کے پتھر سے جھوٹ کے شیشے کی کرچیاں کر رہا ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ جہاں جھوٹ بہتات کے ساتھ بولا جائے وہاں سچ کا پتھر موم کی طرح نرم اور جھوٹ کا شیشہ فولاد کی طرح سخت ہو جاتا ہے۔ شاید اسی سبب گزشتہ تین عشروں سے اپنے صحافتی سفر میں اندھوں کی راہنمائی میں خاک چھانی ہے۔ اس نیت سے کہ شاید میں جھوٹ پے مبنی طویل رات کے سینے میں شگاف ڈال کر ’’سچ‘‘ تلاش کر سکوں۔ اور معاشرے کے ناسوروں کی جراحی کر سکوں اور اپنے معاشرے کو پاک کر سکوں۔ بلاشبہ یہ ایک انسانی کوشش ہے۔ صدق دل سے ایسی کوشش کہ جس میں اب تو لکھنے والی انگلیوں سے لہو بھی ٹپکنے لگا ہے۔ مگر میں مایوس نہیں کیونکہ یہ لہو ایک چراغ ہے میری امید کا، ایسی امید جو کسی منزل کا نشان بھی بن سکتی ہے۔ جو لٹنے والی دھرتی ماں کے بھٹکے ہوئے بیٹوں کے ضمیروں کو جگا بھی سکتی ہے اور اس معصوم ماں کے ننگے بدن کو ڈھانپ بھی سکتی ہے؟ سر علامہ اقبالؒ نے کہا تھا۔
ہمت ہے تو افکار کی دنیا سے گزر جا
ہیں بحرِ خودی میں ابھی پوشیدہ جزیرے
کھلتے نہیں اس قلزم خاموش کے اسرار
جب تک تو اسے ضرب کلیمی سے نہ چیرے
معزز قارئین جس طرح شہید ہونا اور شہیدوں کی قبروں کے مجاور بننے میں فرق ہے ایسے ہی سچ اور جھوٹ دونوں کی ضد ہے۔ حالانکہ جھوٹ بولنا کمزوری کی دلیل ہے۔ لہٰذا جھوٹ بول کر ہم جو خواب دکھاتے ہیں۔ اور اس جھوٹ بولنے پے جتنی توانائی صرف کرتے ہیں اتنی اگر سچ بولنے یعنی کسی مثبت کام میں لگائیں تو نہ صرف خدا کی ہلاکت سے خود کو بچائیں بلکہ معاشرتی عزت بھی پائیں۔ کیونکہ اللہ وحد ھو لا شریک کا قرآن میں فرمان ہے کہ جھوٹ ہلاک کرتا ہے۔ بہرحال لکھتے لکھتے استاد اسد اللہ غالب یاد آ گئے۔ فرمایا تھا۔
آتش کدہ ہے، سینہ میرا رازِ نہاں سے
اے وائے! اگر معرضِ اظہار میں آئے
معزز دوستو، سوچو تو سہی کہ رات سے دن اور دن سے رات کیوں نکلتے ہیں۔ کیا اس لئے تو نہیں کہ وقت کی حقیقت کو سمجھا جا سکے۔ کیونکہ جس طرح نہ دن ہمیشہ نہ رات ہمیشہ قائم رہتی ہے اور وقت بھی بسا
اوقات ایسی ایسی فتوحات کی ہی نہیں زوال کی بھی داستانیں سناتا ہے لہٰذا ہے کوئی جو گزرے وقت یعنی ماضی سے اپنے حال کے وقت کو درست کرنے کا گر سیکھے اور اپنا سنہری مستقبل استوار کر سکے۔ ورنہ بغیر علم وفن، حکمت و دانائی محض لڑائی مار کٹائی یعنی صبح و شام کی بے وجہ محاذ آرائی کرنے والوں کو وقت کب معاف کرتا ہے اور جس قوم کی حکمت ہی ضد ہو اور حماقت ہی شوق ہو تو پھر وہ یہ بھی یاد رکھیں کہ ایسی حماقت کو حکومت تو کیا ساری دنیا کی طاقت بھی مل جائے تو یہ راحت نہیں آفت قرار پاتی ہے۔ ویسے بھی اب تو روبوٹو انسان وقت کو بھی زنجیر ڈالنے کا سوچنے لگا ہے؟ جس کا پہلا صفحہ ’’ہائی برڈ سسٹم متصور ہو گا، یعنی جھوٹ کے جدید ہتھیاروں سے سچ کے کرداروں پے نت نئے حملے‘‘۔ جبکہ دنیا کا ہر ملک اس کی زد میں چینل ہوں یا پھر سوشل یا ڈیجیٹل میڈیا ہو۔ ان سب کو اپنا اپنا پالتو بنا لیا جائے گا بلکہ ایسے ایسے سیل، میڈیا ہائوسز قائم ہوں گے جو سچ اور جھوٹ میں تفریق ہی ختم کر دیں گے۔ اگر میں یہ کہوں اور جان کی امان پائوں تو اس ہائی برڈ نظام کا بنیادی مقصد ہی کسی بھی ملک اور عوام کو وہاں کی صحیح تصویر یعنی حقیقی صورتحال سے آگاہی کی اجازت نہ ہو گی۔ جو وہ چاہیں گے وہی سکہ رائج الوقت ہوگا۔جبکہ نتیجے میں ایسے محب وطن یا محب قوم یا باضمیر افراد جو ان کی ہاں میں ہاں نہیں ملائیں گے اور ان کی گریٹ گیم یا نئی پلاننگ کا حصہ نہیں بنیں گے۔ وہ پابند سلاسل ہوں گے یا پار کر دیئے جائیں گے۔ آئین کی پیروی مذاق بن جائے گی۔ ایسی ایسی کردارکشی ہو گی کہ ہر کوئی محو حیرت رہ جائے گا۔ بلکہ بعض ذرائع کے مطابق ایسی ایسی منصوبہ بندی اس طریقے اور سلیقے سے کی جائے گی کہ شاید ہی کوئی اعتبار کئے بغیر رہ سکے۔ ملکوں ، قوموں بلکہ ان کے معزز ترین اداروں پر ایسی ایسی فلمیں چلائی جائیں گی اور ان میں بلاخوف و خطر ایسی ایسی کھلی گفتگو ہو گی کہ الحفیظ الامان کے مصداق سرکاری یا غیرسرکاری ادارے اس حوالے سے اپنی تردید کرنے میں بھی اپنی توہین محسوس کریں گے۔ غرضیکہ جس طرح دکھ، درد، مالی حالات اور بیوٹی پارلر انسان کی شکل بدل دیتے ہیں ایسے ہی یہ ’’ففتھ جنریشن وار‘‘ انسانیت کی شکل بگاڑنے پے تل گئی ہے۔ لیکن گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ ضرورت صرف مقابلہ سازی کی ہے کیونکہ جس طرح چین سے مقابلے کے لئے امریکہ، برطانیہ اور غالباً آسٹریلیا نے ہائپر سونک ہتھیار بنانے کا اعلان کر دیا ہے بلکہ ایک یورپی صحافی کے مطابق امریکی صدر مسٹر جوبائیڈن، برطانوی وزیراعظم، مسٹر بورس جانسن، آسٹریلوی وزیراعظم مسٹر سکاٹ موریسن نے جنگی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ معلوماتی وسعت، دفاعی تعاون کو بڑھانے کیلئے نہ صرف ہائپر سونکس بلکہ کائونٹر ہائپو سونکس اور الیکٹرانکس وار فیئر کے تعاون پر بھی نیا عہد کیا ہے۔ جبکہ ہمارے ملک میں ہمارے سیاسی جوان اپنے عوام کو مہنگائی کے نئے سے نئے سونامی میں ڈبکیاں دے رہے ہیں۔ اور جس تیزی سے اپنی معیشت کو زمین بوس کر رہے ہیں اور ایک دوسرے کی کردار کشی میں جتے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے۔ کرپشن اور بدعنوانیاں تو جیسے ہمارا فیشن بن چکا ہے۔ قصہ مختصر پچھلے پچاس برس سے ہمارے حالات بدلتے ہیں نہ تاریخ بدلتی ہے بلکہ اب تو جمہور ہی نہیں خود جمہوریت بھی ماتم کناں ہے۔ جس سے المیے ہی المیے جنم لے رہے ہیں۔ مگر ہر محب وطن کی خواہش ہے کہ سیاسی نفرتیں ختم ہوں۔ داخلی استحکام اور سیاسی ہم آہنگی کیلئے سرجوڑ کر سرتوڑ کوششیں کی جائیں۔ اپنے تمام تر تنازعات کو حکمت و دانائی اور ہوشمندی سے طے کیا جائے تاکہ نہ صرف ہمارے قومی ادارے بلکہ عوام بھی مسائل کے انبار سے باہر نکلیں اور قومی معیشت بھی سیاسی مضمرات سے جان چھڑا سکے اور پاکستان دنیا کا عظیم پُرامن اور خوشحال ملک قرار پا سکے۔
پاکستان زندہ باد!