اسلام آباد: سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دینے سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت کی اپیل ابتدائی سماعت کے لیے منظورکر لی ہے۔
شہباز شریف کو بیرون ملک جانے سے روکنے کا معاملے پر سپریم کورٹ کے جج جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت کی اپیل کی سماعت کی۔ عدالت نے شہباز شریف سمیت تمام فریقین کو نوٹسز جاری کر دیے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ حیرت ہے لاہور ہائیکورٹ نے فریقین کو سنے بغیر فیصلہ کیسے دے دیا؟، بادی النظر میں حکومت نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کی توہین کی۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے استفسار کیا کہ درخواست واپس ہونے پر وفاق کی اپیل کیسے سنی جا سکتی ہے؟، عدالت نے اٹارنی جنرل کی نیب کو نوٹس جاری کرنے کی استدعا مسترد کر دی ہے۔
دوران سماعت اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے دلائل دیے کہ لاہورہائیکورٹ کے سنگل بینچ نے یکطرفہ فیصلہ دیا۔ ۔شہباز شریف کا بطوراپوزیشن لیڈر احترام کرتے ہیں، لیکن قانون سب کیلئے برابر ہے ۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ لاہورہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف حکومتی اداروں نے اقدام کیا۔
جسٹس سجادعلی شاہ کا کہنا تھا کہ شہبازشریف نے ہائی کورٹ سے درخواست واپس لے لی ہے۔ان کا بیرون ملک جانے کا معاملہ تو ختم ہوگیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کے حکم کی توہین ہوئی یا نہیں؟۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ درخواست واپس لینے کے حکم میں بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کا فیصلہ واپس نہیں لیا گیا۔ شہباز شریف کی توہین عدالت کی درخواست زیرالتوا ہے، جس کے ذریعے بیرون ملک روانگی کے فیصلے پرعمل کرایا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسئلہ کسی کے بیرون ملک جانے کا نہیں۔۔عدالتی طریقہ کار کا ہے۔ جس رفتارسے عدالت لگی اورحکم پرعملدرآمد کا کہا گیا وہ قابل تشویش ہے۔۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ شہبازشریف رکن پارلیمان اور اپوزیشن لیڈر ہیں۔ ان کا احترام ہونا چاہیے۔ کیا ضمانت کے دوران بیرون ملک جانے پر پابندی ہے؟۔۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اگر کوئی قانونی پابندی نہ ہو تو جیل سے سیدھا ایئرپورٹ جایا جا سکتا ہے۔ وفاق کا موقف سنا جاتا تو آگاہ کر دیتے کہ نام بلیک لسٹ میں نہیں ہے۔شہباز شریف کا نام اب ای سی ایل میں شامل کیا گیا ہے۔