سرینگر: مقبوضہ کشمیرسابق وزیر اعلی عمر عبداللہ نے کشمیری نوجوان کو فوجی جیپ سے باندھنے کے واقعہ کو جنیوا کنونشن، بھارتی آئین اور ملٹری کوڈ کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ فوجی سربراہ لیفٹیننٹ جنرل بپن راوت کی جانب سے واقعہ میں ملوث میجر لیٹول گگوئی کو توصیفی کارڈ سے نوازا جانا تحقیقات کا عظیم الشان تمسخر ہے۔
عبداللہ نے ان تاثرات کا اظہار بھارتی اخبارمیں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر جو پہلے ہی ملک سے الگ تھلگ ہوگیا ہے، میں شہریوں کو انسانی ڈھال بنانا اب سرکاری طور پر جائز قرار دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہاانسانی ڈھال بناناجنیوا کنونشن، بھارتی آئین اور ملٹری کوڈ کی خلاف ورزی ہے۔ حال ہی میں بھارت نیکلبھوشن یادو کے معاملے میں جنیوا کنونشن کا سہارا لیا۔ جنیوا کنونشن نے انسانی ڈھال بنانے کی کارروائی کو واضح طور پر جنگی جرم قرار دیا ہے۔ عمر عبداللہ نے اپنے مضمون میں میجر گگوئی کو توصیفی کارڈسے نوازے جانے پر کہا ہے ہمیں کہا گیا کہ میجر گگوئی کو توصیفی کارڈ انسداد عسکریت پسندی کی کارروائیوں میں نمایاں کردار ادا کرنے پر دیا گیا اور اس کا بڈگام واقعہ کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ لیکن پیغام واضح ہے۔
عمر عبداللہ نے میجر گوگوئی کے خلاف جاری آرمی کورٹ آف انکوائری کو تماشا قرار دیا ۔ انہوں نے کہا مہربانی کرکے مستقبل میں ملٹری کورٹ آف انکوائری تماشے کی زحمت نہ اٹھانا۔ واضح طور پر صرف رائے عامہ کی عدالت معنی رکھتی ہے۔ میجر گوگوئی نے کل ایک ٹیلی ویژن انٹریو میں عام شہری کو انسانی ڈھال بنانے کے واقعہ کو جواز بخشتے ہوئے کہا کہ انہیں یہ اقدام انسانی جانیں بچانے کے لئے اٹھانا پڑا تھا۔عمر عبداللہ نے کہا کہ حکومت انسانی حقوق کی پامالیوں میں دہرا معیار اپنا رہی ہے۔ عمر عبداللہ نے گگوئی کی طرف سے گزشتہ روز کے انٹرویو میں اس بات کے د عوئے کو مسترد کیا،جس میں انہوں نے انسانی جانوں کو بچانے کیلئے یہ قدم اٹھانے کا دعوی کیا تھا۔عمر عبداللہ نے مضمون میں کہا ہے کہ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ فاروق احمد ڈار ایک سنگباز تھا،کیا اس سے جو برتاؤ کیا گیا،وہ اس کا مستحق تھا،تاہم مقامی میڈیا اور ڈار کا کہنا ہے کہ وہ ایک ووٹر تھا،جس نے الیکشن کے روز اس واقعے سے قبل اپنا ووٹ ڈالا تھا۔انہوں نے کہاکہ چاہئے کچھ بھی ہوایک کشمیری نوجوان کوفوجی گاڑی کے بمپرکیساتھ باندھنے کے واقعے میں ملوث فوجی افسرکومیجر گوگوئی کو توصیفی کارڈ سے نوازا جانااس تحقیقات یاکورٹ آف انکوائری کاسراسرمذاق ہے جسکااعلان خودفوج نے کیاہے ۔ 8نکات پر مبنی اپنے تجزیہ میں سابق وزیر اعلی نے کہا ہے کہ اگر مذکورہ نوجوان سنگ انداز ہی تھا،تو کیا فوج اس کو انسانی ڈھال بنانے کو جواز پیش کر سکتی ہے،اور اگر وہ فی الواقعی پتھر باز تھا،تو کیا فوج ایک بھارتی شہرے کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرسکتی ہے،جو ایک اخلاقی اور قانونی سوال ہے جس کا جواب ہمارے آئین،قانون اور اصولوں کے تحت دینے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ میجر کو کس نے اس بات کا حق دیا کہ وہ از خود اس کا فیصلہ کرے،جبکہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذکورہ میجر کے پاس ایسا فیصلہ کرنے کا حق ہے،جو اس نے کیا۔عمرنے مزید لکھا ہے کہ فاروق احمد ڈار کے حقوق فوج نے مکمل طور پر سلب کئے جبکہ انہوں نے سوالیہ انداز میں پوچھا ڈار کے حقوق کہا ں ہیں،اسکی آزادی،اسکی عزت اور آئینی علاج کو کھڑکی سے باہر پھینکا گیا۔انہوں نے تحریر کیا کہ کہ فوج نے اب یہ روایت جاری کی کہ وہ فوج کے ایک انفرادی افسر کو قانون اپنے ہاتھوں میں لینے کی اجازت ہے ،اور جب انہیں ضروری لگے وہ بھارتی شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرینگے۔
عمر عبداللہ نے کہا کہ فوج کی ذمہ داری صرف اپنے لوگوں کے ساتھ لڑنا نہیں نہ اپنے شہریوں کے ساتھ نبرد آزما ہونا ہے،کیونکہ فوج ملک کے شہریوں کو حفاظت فراہم کرنے اور انکے جمہوری حقوق کو تحفظ فرہم کرنے کیلئے وعدہ بند ہے۔