سکھر: سکھر کے تاریخی اور تہذیبی آثار قدیمہ لاکھین کے دڑے پر سندھ حکومت کے محکمہ نوادرات کی جانب سے شاہ عبدالطیف یونیورسٹی ، سندھ یونیورسٹی کی مشترکہ تحقیق کا کام جاری ہے ۔
کھدائی کے دوران مہریں، تعمیراتی میٹریل ، ڈھول،کھلونے، مٹی کے خاص قسم کے موتی، چھوٹے بڑے برتن، چوڑیاں، بیل گاڑیاں، گول ڈسک، کالی اور سفید مہریں برآمد ہوئی ہیں جو آئندہ آنے والی نسلوں اور آثار قدیمہ پر تحقیق کرنے والے طالب علموں کے لیے معلومات اور تہذیب کو جاننے میں مدد گار ثابت ہونگی ۔محکمہ نوادرات سندھ حکومت کی جانب سے لاکھین کے دڑے پر شاہ عبدالطیف یونیورسٹی ، سندھ یونیورسٹی اور دیگر تحقیقاتی اداروں کیجانب سے مشترکہ تحقیق جاری ہے اس سلسلے میں تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ آرکیالوجی ڈپارٹمنٹ شاہ عبدالطیف یونیورسٹی کے پروفیسر قاصد ملاح نے بتایا کہ لاکھین کے دڑے میں کھدائی اور تحقیق سے ہزاروں سال پرانی سندھ کی تہذیب کے آثار مل رہے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ لاکھین کے دڑے کی شہری زندگی موئن جو دڑو،ہڑپا، گینواری چولستان، لوتھال جو انڈیا میں ہے اس سے مماثلت رکھتی ہیں انہوں نے بتایا کہ کھدائی کے دوران مٹی کے چھوٹے بڑے برتن، کالی اور سفید مہریں ، ڈھول، پائپ نما مٹی کے ٹکرے، کھلونے، چوڑیاں، وزن کرنے کے باٹ، دیواروں کی تعمیر، تعمیر میں ناپ کرنے کا سامان، گول ڈسک، خاص قسم کے پتھر کی موتی(منکا)، گھروں کی چھت پر چڑھنے کے لیے سیڑھیاں، ڈرنیج نظام کے علاوہ کافی نوادرات وآثار برآمداور ظاہر ہوئے ہیں جو لاکھین کے ڈرے کی تہذیب اور شہری زندگی کے بارے میں معلومات کا باعث بن رہی ہیں انہوں نے مزید بتایا کہ لاکھین کے دڑے کی تاریخ وتہذیب کے تین حصوں پر محیط ہے۔
پہلا حصہ جہاں اس وقت کام کیا جارہا ہے جبکہ دوسرا حصہ گتا فیکٹری کا علاقہ جو وسطی حصہ اورقریشی گوٹھ میں مشرقی حصہ موجود ہے اور لاکھین کے دڑے کی کاروبار زندگی مکمل شہری زندگی پر مبنی ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ لاکھین کے دڑے سے ملنے والی نوادرات کو پاکستان کے مختلف عجائب گھروں میں رکھا جائے گا جس سے تحقیق اور آثار قدیمہ کی تعلیم حاصل کرنے والے طلباءکو معلومات کی فراہمی اور سیکھنے مواقع فراہم کریں گی ۔