صحافیوں کو ہراساں کرنے کیخلاف کیس: ایف آئی اے نےمقدمات واپس لینےکی یقین دہانی کرادی

 صحافیوں کو ہراساں کرنے کیخلاف کیس: ایف آئی اے نےمقدمات واپس لینےکی یقین دہانی کرادی

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں صحافیوں کو ہراساں کرنے کیخلاف کیس کی سماعت میں ایف آئی اے نےمقدمات واپس لینےکی یقین دہانی کرادی۔عدالت نے  کیس کی سماعت 27 مارچ تک ملتوی کردی۔   

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل 3 رکنی بینچ نےصحافیوں کو ہراساں کرنے کیخلاف کیس کی سماعت کی۔ ایف آئی اے نےمقدمات واپس لینےکی یقین دہانی کرادی۔

سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اور پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین روسٹرم پر آ گئے، 

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےریمارکس دیئے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اس کیس کی تاریخ پہلے دیکھ لیتے ہیں، 2 رکنی بینچ نے 2021 میں نوٹس لیا تھا۔ ۔گزشتہ درخواست پر اگر فیصلہ ہو جاتا تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا، جو لوگ پیچھے ہٹ گئے ان کی بھی کمزوری ہے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ اس وقت یہ معاملہ 2 رکنی سے 5 رکنی بینچ کے سامنے چلا گیا، کہا گیا صرف چیف جسٹس سوموٹو نوٹس لے سکتے ہیں، وہ معاملہ ایف آئی اے نوٹس ملنے سے زیادہ سنگین تھا۔2021میں صحافیوں کو ہراساں کرکےتشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ دونوں معاملات کی اپنی اپنی سنگینی ہے، اِس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دونوں کو ایک جیسا سنگین نہیں کہہ سکتے، ایف آئی اے نوٹس مکمل غیر قانونی بھی ہو چیلنج ہو سکتے ہیں، الزام تو لگایا جاتا ہے مگر عدالت پیش ہو کر مؤقف نہیں دیا جاتا۔

 
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ایڈووکیٹ حیدر وحید سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ میڈیا ریگولیشن کی بات کر رہے ہیں، ہم عدالت کو استعمال نہیں ہونے دیں گے، اس عدالت کو کسی کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بیرسٹر صلاح الدین! آپ کی درخواست کیا ہے؟جس پر بیرسٹر صلاح الدین نے جواب دیا کہ پریس ایسوسی ایشن سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ ایسوسی ایشن کی درخواست ہے، میں مطیع اللہ جان اور ابصار عالم کی بھی نمائندگی کر رہا ہوں۔

انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایف آئی اے انکوائری درج کرنے کے بعد گرفتاری کا اختیار رکھتی ہے، اس اختیار کو میڈیا اور صحافیوں کی آواز دبانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ہم کسی ایف آئی آر کو درج ہونے سے روک سکتے ہیں؟ ایف آئی آر غلط ہو سکتی ہے مگر اسے کیس ٹو کیس ہی دیکھا جائے گا، پاکستان میں میڈیا اور صحافیوں کے ساتھ کیا ہوا اس پر تو کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ پیکا کی ایک سیکشن 20 ہے جسے بار بار غلط استعمال کیا جاتا ہے۔

بعد ازاں عدالت نے صحافیوں کو ہراساں کرنے کے خلاف کیس کی سماعت 27 مارچ تک ملتوی کردی۔

مصنف کے بارے میں