صدارتی ریفرنس پر سماعت پیر تک ملتوی، قرآن میں خیانت کی بہت سخت سزا ہے: چیف جسٹس 

02:53 PM, 25 Mar, 2022

نیوویب ڈیسک

اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطاءبندیال نے ریمارکس دئیے ہیں کہ اعتماد توڑنے والے کو خائن کہا جاتا ہے اور خیانت کی قرآن میں بہت سخت سزا ہے، مضبوط جماعتی سسٹم مضبوط جمہوری نظام کا ضامن ہے، آئین میں جماعت سے منسلک ہونا ضروری ہی نہیں قرار دیا گیا۔ سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 63اے کی تشریح کیلئے دائر صدارتی ریفرنس پر سماعت پیر تک ملتوی کر دی ہے۔ 
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطاءبندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن ،جسٹس مظہر عالم خان، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل لارجر بینچ نے کیس کی گزشتہ روز کی سماعت کو آگے بڑھایا جس دوران اٹارنی جنرل نے دلائل پیش کرتے ہوئے کہا کہ مخصوص نشستوں والے ارکان بھی سندھ ہاؤس میں موجود تھے، مخصوص نشستیں پارٹی کی جانب سے فہرست پر ملتی ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دئیے کہ خیانت کی قرآن میں بہت سخت سزا ہے، اعتماد توڑنے والے کو خائن کہا جاتا ہے، آپ کے مطابق پارٹی کو ووٹ نہ دینے والے خیانت کرتے ہیں، امانت میں خیانت کرنا بہت بڑا گناہ ہے، مضبوط جماعتی سسٹم مضبوط جمہوری نظام کا ضامن ہے، آئین میں جماعت سے منسلک ہونا ضروری ہی نہیں قرار دیا گیا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ جب ایک رکن جماعت کا حصہ بنتا ہے تو پارٹی وفاداری کا دستخط دیتا ہے،کیا 63 اے کے تحت پارٹی ہیڈ نے اراکین کو ہدایات جاری کی ہیں؟ اگر وزیراعظم نے کوئی ہدایات جاری کی ہیں تو عدالت کو آگاہ کریں، اگر ووٹر بیلٹ پیپر پر انتخابی نشان دیکھ کر ووٹ دے تو جماعت کی منشا پر چلنا ضروری ہوجاتا ہے۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ برصغیر میں لڑے لیڈرز کے نام سے سیاسی جماعتیں آج بھی قائم ہیں۔ 
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ برصغیر میں یہ پریکٹس ہے کہ پارٹی کو منشور کے مطابق چلایا جاتا ہے، جب ملٹری کورٹس بنیں تو رضا ربانی نے ذاتی اختلاف کے باوجود پارٹی موقف کی حمایت کی۔ اس پر جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیئے کہ آپ اٹارنی جنرل ہیں، پارٹی نمائندے یا وکیل نہیں،اگر وزیراعظم کوئی غلط کام کرے کیا تب بھی پارٹی سے وفاداری نبھانا ضروری ہے؟ 
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ارکان اسمبلی ربڑ سٹمپ نہیں ہوتے، پارٹی فیصلے سے متفق نہ ہوں تو مستعفی ہوا جا سکتا ہے۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارٹی اختلاف کا یہ مطلب نہیں کہ حکومت کے خلاف جایا جائے۔ جس پر جسٹس مظہر عالم نے استفسار کیا کہ پارٹی پالیسی سے اختلاف کرنے والا استعفیٰ کیوں دے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارٹی ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والا جماعت کے ڈسپلن کا بھی پابند ہوتا ہے۔ جسٹس جمال خاند مندوخیل نے کہا کہ ہر شخص کو آئین اپنے خیالات کے آزادانہ اظہار کا حق دیتا ہے، کیا خیالات کے اظہار پر تاحیات نااہلی ہونی چاہئے؟ 
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دئیے کہ آرٹیکل 63 اے کی خوبصورتی یہ ہے کہ اسے استعمال کی ضروت پیش نہیں آتی، آرٹیکل 63 اے اضافی رہا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ دعویٰ کرتا ہوں تاحیات نااہلی انحراف کا خاتمہ کرے گی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو بتانا ہوگا کہ تاحیات نااہلی کس بات پر ہونی چاہیے، ذاتی مفاد کیلئے اپنے لوگوں کو چھوڑ کر جانا بے وفائی ہے۔ 
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سینیٹ الیکشن میں ویڈیو سامنے آئیں، پیسہ بانٹا جا رہا تھا جس پر جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ ابھی جرم ہوا نہیں کہ آپ رائے مانگ رہے ہیں تو اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ قتل کی سزا قتل ہونے سے پہلے متعین ہوئی، جرم سے پہلے سزا کا تعین ضروری ہے جس کا مقصد جرم روکنا ہے، کیا پتہ انحراف نہ ہو مگر اس کی سزا متعین ہونا ضروری ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ صدر نے آئین کی تشریح کا کہا ہے، تشریح سے ادھر ادھر نہیں جا سکتے، ممکن ہے، ریفرنس واپس بھیج دیں۔ 

مزیدخبریں