اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کونسل کا48 واں اجلاس امت مسلمہ کی یکجہتی کا ناقابل فراموش منظر پیش کر رہا تھا، جس میں مسلم دنیا کو درپیش چیلنجز اور مواقعوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس میں 140 قراردادوں میں سے 20 پاکستان نے پیش کیں، جن میں فلسطین، افغانستان اور کشمیر سمیت دیگر مسلم ممالک کیدیرینہ مسائل پر مختلف پہلوئوں سے اظہار خیال کیا گیا۔ یہ پہلا موقعہ تھا جب کوئی چینی وزیرخارجہ او آئی سی کے وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس میں شرکت کر رہا تھا، جو یقیننا ایک بڑا پیغام ہے۔مقبوضہ کشمیر کی حریت کانفرنس کیراہنمائوں کو مودی حکومت نے اسلام آباد جانے کی اجازت نہیں دی۔ سعودی وزیر خارجہ نے مسئلہ کشمیر اور افغانستان میں صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے زور دیا کہ سعودی عرب افغانستان میں امن وسلامتی کیلئے اسلامی ممالک کی کوششوں کی توثیق کرتا ہے۔اجلاس میں وزرائے خارجہ، نائب وزرائے خارجہ، مستقل نمائندوں، 15 مبصر ممالک کے نمائندوں سمیت 675 سے زائد مبصرین نے شرکت کی۔ یقیننااسلامی ممالک وزرائے خارجہ کانفرنس پاکستان کی بہت بڑی کامیابی ہے۔
کانفرنس میں وزیر اعظم عمران خان کی کارکردگی بہت متاثر کن رہی۔انہوں نے کہا کہ تنظیم او آئی سی کشمیر اور فلسطین کے معاملے پر ناکام رہی جبکہ مغربی دنیا او آئی سی کو سنجیدہ نہیں لیتی کیونکہ ہم تقسیم ہیں، جبکہ عالمی سطح پر اسلاموفوبیا کو حقیقت تسلیم کرنا ہماری بڑی کامیابی ہے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ افغانستان کو مستحکم کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ افغانستان کا استحکام ہی دہشت گردی کو روک سکتا ہے۔یوکرین کے حوالے سیانہوں نے زور دیا کہ ہم ایک ارب سے زیادہ مسلمان کس طرح اس مسئلے پر ثالثی کرا سکتے ہیں۔ تیل اور گیس کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، چین اور مسلم دنیا یوکرائن مسئلے کو حل کرنے کیلئے اثر ورسوخ استعمال کر سکتے ہیں۔ دو روزہ کانفرنس نے عالمی طاقتوں کو اسلامی ممالک کی یکجہتی اور مشترکہ، متنازعہ امور پر ہم آہنگی کا پیغام دیا ہے جو خاصا طاقتور ہے۔
ملکی و خارجی سطح پر حکومت کو کئی چیلنجز کا سامناہے، اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کی ایک بڑی تعداد نے اس کانفرنس میں شرکت کی، جو یقیناً گورنمنٹ کا کریڈٹ ہے۔57 اسلامی ممالک کی تنظیم اوآئی سی کے وزرائے خارجہ اجلاس کے بعد ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیاگیا، جس کیمطابق بھارت میں مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک اور عدم رواداری کی منظم اور وسیع پالیسی کی مذمت کی گئی، جس وجہ سے انکی سیاسی، معاشی اور سماجی حد بندی ہوئی ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کی شناخت اور حجاب پرہونے والے انتہائی ضرررساں حملوں پرسخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیاگیا کہ وہ فوری طور پرحجاب پرپابندی ایسے امتیازی قوانین کو منسوخ کرے، اورہندوستانی مسلمانوں کے حقوق کو یقینی بنائے اور انکی مذہبی آزادیوں کا تحفظ کرے۔
اعلامیے میں اقوام متحدہ میں اصلاحات اور اسکی سلامتی کونسل کی رکنیت میں توسیع بارے سابقہ قراردادوں کا اعادہ کیا گیا کہ سلامتی کونسل میں اصلاحات کی کوششوں کو کسی مصنوعی ڈیڈ لائن کے تابع نہیں کیا جانا چاہیے اور کوئی بھی اصلاحاتی تجویزجو سلامتی کونسل میں رکنیت کی توسیع کے کسی بھی زمرے میں ملت اسلامیہ کی مناسب نمائندگی کو نظرانداز کرتی ہے،اسلامی دنیا کیلیے قابل قبول نہیں ہوگی۔ اعلامیے میں اسلاموفوبیا اور مسلم مخالف نفرت کے بڑھتے ہوئے رجحان اور حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی اور اسلامی شعائرکے تقدس کی بیتوقیری، دنیا بھر میں مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکانے اور بین ثقافتی تقسیم اور کشیدگی کو ہوا دینے کی تمام کوششوں کی شدید مذمت کی گئی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی طرف سے 15 مارچ کو اسلاموفوبیا سے نمٹنے کے لیے عالمی دن قرار دیا جانے کی قرارداد کی منظوری کا خیرمقدم بھی کیا گیا، جبکہ تمام مذاہب، نسلوں اور قوموں کے درمیان رواداری، پرامن بقائے باہمی اور بین المذاہب اور ثقافتی ہم آہنگی کے پیغام کو فروغ دینے میں ہر سطح پر بیداری پیدا کرنے پرزور دیا گیا۔اعلامیے میں اپنے انسانی اور مادی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے سائنسی اور تکنیکی تعاون کو آگے بڑھانے کا عہد بھی کیا گیا۔ پوری اسلامی دنیا میں اعلیٰ تعلیم کے نئے اسلامی ادارے تشکیل دینے کی حمایت اور سائنس، ٹیکنالوجی اورایجادات کی ترقی میں رکن ممالک کی کوششوں کی حمایت میں سائنسی اور تکنیکی تعاون سے متعلق قائمہ کمیٹی کومسٹیک کے قائدانہ کردار کا اعادہ بھی کیاگیا۔
افغانستان کی اپنے مالی وسائل تک جلد رسائی معاشی بدحالی کوروکنے اورانسانی صورت حال میں بہتری لانے اوران کے منجمد قومی اثاثوں کو اس کے عوام کوواپس کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ وزراء خارجہ نے کہا کہ افغانستان کے علاقے کو کسی دہشت گرد گروہ خصوصاً القاعدہ، داعش اور اس سے وابستہ افراد کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ذریعے پلیٹ فارم یا محفوظ پناہ گاہ کے طور پر استعمال نہ کیا جائیاور عالمی برادری پرزور دیا کہ وہ افغانستان میں امن و استحکام کو یقینی بنانے کے مقصد کی کوششوں کو یقینی بنانے پرزور دیا گیا۔ میانمار میں روہنگیا مسلم کمیونٹی کے خلاف ہونے والے مظالم کی شدید مذمت اور انکے بنیادی حقوق کی پاسداری اور انکے خلاف کارروائیوں کوختم کرنیکا مطالبہ کیا گیا۔میانمار کی حکومت سے مطالبہ کیاگیاکہ وہ اندرونی اور بیرونی طور پر بے گھر ہونے والے تمام روہنگیا افراد بشمول بنگلہ دیش میں پناہ لینے پر مجبور تمام روہنگیا افراد کی حفاظت، سلامتی اور وقار کے ساتھ واپسی کی اجازت دے۔اس سلسلے میں قانونی کوششوں اور گیمبیا کی جانب سے بین الاقوامی عدالت انصاف میں دائر مقدمے کی مزید حمایت کا اعادہ کیا گیا۔ عالمی برادری سے مطالبہ کیاگیا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف نفرت اورامتیازی سلوک پراکسانے سے روکے اور مذاہب کی بدنامی اور مذہب، عقیدے یا نسل کی بنیاد پر لوگوں کی منفی دقیانوسی تذلیل اور بدنامی کی کارروائیوں سے نمٹنے کیلیے مؤثر اقدامات کرے۔ غیر او آئی سی رکن ممالک میں مسلم کمیونٹیوں اور اقلیتوں کے حقوق کو فروغ دینے اور انکی پاسداری کے عزم کی تجدید کی گئی۔
اس کامیاب کانفرنس سے پاکستان کو مسلم دنیا میں ایک مضبوط مقام حاصل ہو گا۔ اقوام متحدہ کی طرف سے اسلاموفوبیا کے خلاف دن منانے کا اعلان ایک بڑی بات ہے اور عمران خان اسکا بجا طور پر کریڈٹ لے رہے ہیں۔ایسے وقت میں جب دنیا یوکرائن کے مسئلے میں گھری ہوئی ہے، اتنی بڑی تعداد میں وزرائے خارجہ کی آمد پاکستان کے لیے بڑی بات ہے۔ حکومت اس کامیابی کو آنے والے وقتوں میں سیاسی مقاصد کیلیے استعمال کرے گی۔ اگرچہ اوآئی سی ایک کمزور تنظیم ہے، اسلامی ممالک کی یہ تنظیم یورپی یونین کی طرح طاقتور نہیں ہے۔جب تک ایران اور سعودی عرب کی چپقلش ہے،اس وقت تک او آئی سی مضبوط نہیں ہو سکتی، مسلم ممالک کواپنے آپس کے مسائل پہلے حل کرنے ہوں گے۔اس کانفرنس کی اصل کامیابی یہ ہو گی کہ اسکیاعلامیہ پر ٹھوس اقدامات اورعملدرآمد بھی کیا جائے، جو یقیننا کامیاب اوآئی سی کانفرنس اور پاکستان کے قائدانہ کردار کاتقاضا بھی ہے۔