ہائبرڈ نظام مسلط کرنے سے بہت پہلے ہی اس منصوبے پر عمل درآمد شروع کردیا گیا تھا ۔ عدلیہ اور میڈیا کو مکمل طور پر کنٹرول کرنا اسی پراجیکٹ کا حصہ تھا ۔ مسلم لیگ ن کی حکومت کے دوران ہی وزیر اعظم نواز شریف ان کے خاندان اور پارٹی پر عدلیہ اور مخصوص میڈیا سے حملے شروع ہوگئے ۔ اس کے لئے کئی ٹی وی چینل اور اخبارات استعمال کئے گئے اور نئے میڈیا ہائوسز بھی قائم کئے گئے ۔ سب سے زیادہ کام سوشل میڈیا پر کیا گیا ۔ منظم انداز میں اربوں روپے لگا کر ایسے سیل اور گروپ بنائے گئے جو پی ٹی آئی کے مخالفوں کے خلاف ہر جھوٹی سچی خبر پر آسمان سر پر اٹھا لیتے تھے ۔ یہ یقین کرلیا گیا تھا کہ جب میڈیا کو پالتو بنا لیا گیا تو ملک کے 22 کروڑ عوام کو بھی جو کچھ پڑھایا یا دکھایا جائے گا تو وہ اس پر یقین کرلیںگے ۔ یہ بھی طے کرلیا گیا تھا کہ کسی میڈیا ہاؤس کو حقیقی صورتحال عوام کے سامنے پیش کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔ اسی پلاننگ کے تحت چینلوں اور اخبارات سے کئی صحافیوں کو آئوٹ کردیا گیا ۔کچھ پر تشدد ہوا، بعض پر مقدمات بنے اور کئی ایک کو دھمکیاں ملتی رہیں ۔ظاہر ہے یہ سب کچھ طاقتور حلقے ہی کرسکتے تھے ۔ اسی ماحول میں ایک محفل کے دوران میڈیا کنٹرول کرنے والی ایک اہم شخصیت کے سامنے یہ تجزیہ پیش کیا گیا کہ جو کچھ ہورہا ہے اس کا ردعمل ان اداروں کے خلاف آئے گا جن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے۔ کیونکہ جن سیاسی اور غیر سیاسی شخصیات کو ایسے میڈیا ہائوسز اور سوشل میڈیا سیلوں سے نشانہ بنایا جارہا تھا ۔ ان کے حامی لاکھوں میں نہیں بلکہ کروڑوں میں ہیں ۔ اس پر جواب دیا گیا ایسا کچھ نہیں ہوگا ، آپ دیکھتے جائیں ہم آئندہ کیلئے میڈیا کا پورا ماڈل ہی بدل کر رکھ دیں گے ۔ ستم ظریفی تو یہ تھی کہ مخالفین کو نشانہ بنانے کے لئے میڈیا کے جن صحافتی کرداروں کا استعمال کیا گیا ان میں سے اکثر کے اپنے کردار پر سوالیہ نشان تھا ۔ اوپر سے وہ بڑے فخر سے بتاتے تھے کہ وہ کن کی ٹائوٹی کررہے ہیں ۔ سو وہی ہوا کہ آزاد میڈیا کا ایک حصہ بھی ڈٹا رہا اور منظم سوشل میڈیا سیلوں کے جواب میں عوام نے اپنے طور پر جوابات دینا شروع کئے تو یہ بازی بھی پلٹتی نظر آئی ۔ آج عالم یہ ہے ایک پیج کا میڈیا سیل خود اپنے محسنوں پر برس پڑا ہے ۔ عمران حکومت کو خطرے میں دیکھ کر اداروں اور ان کے سربراہوں پر غلیظ تنقید کی جارہی ہے ۔ اداروں کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ آئین کی پیروی کرتے ہوئے نیوٹرل ہوچکے ہیں۔ معاملہ اس حد تک بڑھ گیا کہ پی ٹی آئی کی ایم این اے کنول شوذب کے پاک فوج پر الزامات کے بعد مسلم لیگ ق کے چودھری سالک کو بیان دینا پڑا کہ وزیر اعظم اس گندی مہم کا نوٹس لیں ورنہ ہم ملک دشمنوں سے نمٹنا جانتے ہیں ۔ بظاہر حکومت نے اس کا نوٹس لے بھی لیا ہے مگر اصل سوال تو یہ ہے کہ اس مہم کی منصوبہ بندی کس نے کی ہے ۔ وہی جانے پہچانے سوشل میڈیا اکاؤنٹس جو پی ٹی آئی کے ہر مخالف کے درپے رہتے ہیں اور اداروں پر زبان درازی کررہے ہیں ۔ ایسے میں اپوزیشن جماعتوں کے حامی ہیں جو ان عناصر کے خلاف ملکی اداروں کے دفاع کے لئے سامنے آرہے ہیں ۔ پی ٹی آئی اور اس کے حامی فوج کو سیاست میں گھسیٹنا چاہتے ہیں جب کہ اپوزیشن چاہتی ہے ایسا نہ ہو ۔ گلی کوچوں میں نکل کر جائزہ لیں تو عوام بھی یہی چاہتے ہیں کہ فوج اور عدلیہ سمیت تمام ادارے اپنا اپنا کام کریں ۔ پی ٹی آئی حکومت کی غیر معمولی حمایت اور پشت پناہی کرنے کے سبب اب اس کی ناکامیوں کا ذمہ دار بھی انہی عناصر کو ٹھہرایا جارہا ہے جو اسے لے کر آئے ہیں ۔ پچھلے دنوں میں لمز میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی طلبہ سے طویل ملاقات میں جو گفتگو ہوئی اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ لاہور کے سب سے پوش علاقے میں واقع اس اہم ترین تعلیمی ادارے میں کیا سوچ پائی جارہی ہے ۔ اگرچہ اس ملاقات میں ہونے والی گفتگو کو سرکاری یا غیر سرکاری طور پر جاری نہیں کیا گیا مگر غیر ملکی ذرائع ابلاغ میں اس حوالے سے آنے والی رپورٹوں کی تردید بھی نہیں کی گئی ۔ کچھ اور ذرائع سے بھی چند نکات سامنے آئے ۔برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق آرمی چیف کا یہ پروگرام تو محض ایک دو گھنٹے کا تھا مگر وہ کہتے ہیں ناں کہ اگر بات نکلی تو پھر دور تلک جائے گی۔ ایسا ہی کچھ لمز میں آرمی چیف کے اس خطاب کے ساتھ ہوا۔ انہیں طلبا کے تند و تیز سوالات کے لئے ساڑھے سات گھنٹے رکنا پڑا۔سوال و جواب کا سیشن جاری تھا کہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے کہا کہ اب بہت وقت ہو گیا ہے اور اس سیشن کو اب ختم کرتے ہیں۔ یوں دن 12 بجے سے شروع ہونے والا یہ پروگرام شام
ساڑھے سات بجے اختتام پذیر ہوا ۔جن طلبا سے بات کی گئی ان کی اکثریت کا مؤقف یہ ہے کہ آرمی چیف نے تسلی سے ان کے سوالات سنے اور پھر انتہائی تحمل سے ان کے جواب دیئے۔ اگر پھر بھی طلبا کی تسلی نہیں ہوئی تو انہوں نے مزید ضمنی سوالات بھی سنے جو عام طور پر ایسے پروگرامز میں دیکھنے کو نہیں ملتا۔شریک طلبا کے مطابق فوج سے متعلق جتنے اعتراضات بھی اٹھائے جاتے ہیں ان پر کھل کر گفتگو ہوئی اور کسی نے کسی کو نہ تو ٹوکا اور نہ ہی سخت سوالات پوچھنے پر انتظامیہ کی طرف سے کوئی سرزنش کی گئی۔ایک طالبعلم نے بتایا کہ وہ فوج کے سربراہ کی جانب سے دیئے جانے والے متعدد جوابات سے متفق نہیں ہیں مگر پھر بھی وہ یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ کم از کم آرمی چیف نے اختلافی نکتہ نظر کو سنا تو سہی اور ’پراپرٹی میں جرنیلوں کی دلچسپی‘ تک کے موضوع پر کھل کر بات کی۔ایک اور طالبعلم جن کا تعلق ملک کے ایک پسماندہ اور کم سہولیات والے خطے سے ہے کا کہنا ہے کہ ان کا تاثر یہ تھا کہ ان کے سوالات کو ’فلٹر‘ کر دیا جائے گا مگر آرمی چیف نے ان کے خطے سے متعلق پوچھے گئے سوالات کا تفصیلی جواب دیا۔ایک طالبعلم کے مطابق ’آرمی چیف نے سوالات کے جوابات تو ضرور دیئے مگر متعدد بار ’ان کی جانب سے ’سول انتظامیہ ان معاملات میں بااختیار ہے‘، جیسے جوابات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ درست تصویر پیش نہیں کر رہے تھے۔‘ ایک دوسرے طالب علم نے کہا کہ ’میرا پہلے یہ تاثر بن گیا تھا کہ ملک میں ہر چیز کے پیچھے فوج ہے مگر جب سے آرمی چیف کو سنا تو سوچ میں 180 ڈگری کی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔پروگرام میں شریک ایک طالبہ نے بتایا کہ لاپتہ افراد کو ایگزیکٹو کا مسئلہ بتانے پر انہیں مایوسی ہوئی مگر جس طرح فوج کے سربراہ نے تفصیل سے اس معاملے پر بات کی وہ قابل تعریف پہلو تھا۔ایک طالبعلم کے مطابق ’میرا تاثر خاص نہیں بدلا مگر میرے لئے جو نئی چیز تھی وہ یہ تھی کہ آرمی چیف نے ہر طرح کے سوالات کا سامنا کیا اور وہ اس بات سے بھی آگاہ تھے کہ فوج پر کس قسم کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔‘‘ایک طالبعلم نے کہا کہ وہ سوال و جواب کے سیشن سے تو مطمئن ہیں مگر ان کے ذہن میں یہی سوال بار بار آ رہا تھا کہ کیا آرمی چیف کو زیب دیتا ہے کہ وہ ایسے تاثر درست کرنے کی کوشش کریں۔اور پھر وہ یہ بھی سوچ رہے تھے کہ آخر اس کے پیچھے مقاصد کیا ہیں اور آرمی چیف کا تعلیمی ادارے میں کیا کام ہے۔شعبہ سیاسیات اور اکنامکس کے ایک طالبعلم نے کہا کہ یہ صاف دکھائی دے رہا تھا کہ فوج کا سربراہ تیاری کر کے ایک ایسی یونیورسٹی آیا جہاں اکثریت فوج کے غیرقانونی اور غیر آئینی اقدامات پر کھل کر بات کرتی ہے۔ ان کے مطابق اس صورتحال کو ذہن میں رکھ کر آرمی چیف نے پہلے ہی اپنے خطاب میں بہت سے سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کی۔ان کے مطابق ایک گھنٹے کے خطاب میں آرمی چیف نے خود ہی بتایا کہ انہیں معلوم ہے کہ فوج کے بارے میں کیا کہا جاتا ہے کہ وہ ’کالی ویگو‘ میں اختلاف رائے رکھنے والوں کو اغوا کر کے لے جاتی ہے اور بعض صحافیوں پر حملوں میں بھی ملوث ہے۔’انہوں نے یہاں تک بھی کہہ دیا کہ کچھ لوگ حکومت، ججز اور پشاور میں 2014 میں ایک سکول میں ہونے والے حملے کے پیچھے بھی فوج کے کردار پر بات کرتے ہیں۔ایک طالبہ نے کہا کہ ان کے فوج کے بارے میں تاثرات بالکل نہیں بدلے۔یونیورسٹی کی ایک پروفیسر نے بتایا کہ دیگر صوبوں سے آئے کچھ طلبا نے یہ شکایت بھی کی فوج کے سربراہ کی کچھ پالیسیوں سے ان کے اختلافات ہیں اور ان کے یونیورسٹی میں مہمان بن کر آنے سے ان کے خدشات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔بعض طلبہ نے اس موقع پر یونیورسٹی کی سکیورٹی غیر معمولی طورپر سخت کرنے کی مخالفت کی ۔ کچھ حلقوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اس تقریب میں مدعو کئے جانے والے طلبہ کا بیک گراونڈ اچھی طرح سے چیک کرکے تسلی کرلی گئی تھی ۔ ایک تجزیہ کار کے مطابق آئی ایس پی آر کی سطح پر فوج کی جانب سے ڈرامے بنائے جا رہے ہیں، نغمے بن رہے ہیں۔ سیکڑوں بچے آئی ایس پی آر میں انٹرن شپ کر رہے ہیں، لیکن وہ ریسپانس نہیں مل رہا جس کی توقع تھی۔ لہٰذا جنرل باجوہ خود مجبور ہوئے کہ وہ لمز جیسے اداروں کے دورے کریں۔ یہ سب نکات اور تفصیلات اپنی جگہ مگر بڑا سوال یہی ہے کہ فوج کے متعلق جو تاثر بن رہا ہے اس کی بنیادی وجہ کیا ہے ؟ سب کو اچھی طرح سے یاد ہے کہ جنرل مشرف کی پالیسیوں کے باعث ادارے کی ساکھ متاثر ہونے لگی تھی ۔ جیسے ہی جنرل کیانی آئے انہوں نے فوج کو سیاست سے دور رہنے کا حکم دیا پھر سب نے دیکھا کہ چند دنوں میں ہر قسم کی تنقید اور اعتراضات ختم ہوگئے ۔ نکتہ چینی کا اگلا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب جنرل شجاع پاشا نے پی ٹی آئی کی تعمیر نو کرنے کا عملی اقدام کیا ۔ اس سے یہ تو واضح ہے کہ اگر ادارے آئین میں طے کردہ کردار کے مطابق اپنے کام سے کام رکھیں تو تشہیر ی مہم کی بھی ضرورت نہیں رہتی ۔ یہ چیز بھی سمجھ لینی چاہئے کہ صرف گوگل کی مدد سے ہی بہت سے حقائق آشکار ہوچکے ہیں ۔ سچ جاننا اب سب کی رسائی میں ہے ۔ سوشل میڈیا بھی معلومات اور پراپیگنڈہ کا بہت بڑا ذریعہ بن چکا ہے ۔ بنیادی بات پھر وہی ہے کہ اسے ہتھیار بنا کر مخالفین کے خلاف استعمال کرنے کا کام کس نے شروع کیا تھا ۔ مختلف سرکاری اداروں کی حمایت سے یہ وہی گینگ ہیں جو اب نیوٹرل ہونے پر فوج اور ایجنسیوں کے خلاف غلط الزامات لگا رہے ہیں ۔ لطیفہ یہ ہے کہ ایک طرف حکومت ان عناصر کے خلاف کارروائی کرنے کی بات کرتی ہے تو دوسری طرف وزیر اعظم اپنے جلسوں میں جو دھمکیاں لگا رہے ان کا مخاطب بھی نیوٹرل ہوجانے والے ہی ہیں ۔ ان کے ایک حامی بلکہ تنخواہ دار کالم نویس نے لکھا ہے کہ وزیر اعظم کو مشورہ دیا گیا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی چار اہم شخصیات کو برطرف کردیں ۔ اس سے یہ بات مزید واضح ہوجاتا ہے کہ سوشل میڈیا پر فوجی قیادت کے خلاف مہم پی ٹی آئی اور اس کے حامی عناصر چلا رہے ہیں ۔ مگر اب چل چلائو کا وقت آ چکا۔ وزیر اعظم عمران خان کے ہر چیلنج کا جواب دینے کے لئے اپوزیشن جماعتیں میدان میں نکل چکی ہے ۔ پی ٹی آئی کی ففتھ جنریشن کے اپنے محسنوں پر وار زیادہ دیر تک نہیں چل سکتے ۔ نیوٹرل ہونے والے نیوٹرل ہی رہے تو ادارے کی ساکھ تیزی سے بحال ہوگی اور 22 کروڑ عوام اس کا دفاع کریں گے ۔ یہ آزمودہ نسخہ ہے بشرطیکہ کے ہر کوئی اپنے اپنے آئینی کردار تک محدود ہوکر قانون پسند ہونے کا ثبوت دے ۔ پی ٹی آئی کی جانب سے چھیڑی گئی ففتھ جنریشن وار اسی برے طریقے سے انجام کو پہنچے گی جس طرح سے ہائبرڈ سسٹم زمین بوس ہوا ہے۔