ہمارے قومی اور ملی شاعر علامہ محمد اقبالؒؒ نے اپنے کلام کے ذریعے فلسفہ حیات دیا۔ وہ فلسفہ مسلسل عمل اور پہیم جدوجہد کا ہے۔ اقبالؒ کے فلسفہ حیات کی بنیاد میں خودی کا تصور مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔ خودی کی تعمیر میں عقل بھی اپنا کردار ادا کرتی ہے مگر عقل چونکہ محدود ہے اور عشق کا جذبہ اِس کی راہیں روشن کرکے بندے کو خدا کے قریب کر دیتا ہے۔
عالمی مجلس،بیداری فکراقبالؒ کے زیر اہتمام 23مارچ کی ادبی نشست میں احمدحاطب صدیقی نے علامہ کی نظم ’’شمع اور شاعر‘‘ کے پس منظرسے اپنے خطاب میں بتایا کہ شمع نے شکوہ کیاکہ اب کوئی پروانہ مجھ پرنثارنہیں ہوتاجس کے جواب میں یہ نظم لکھی گئی۔یہ نظم مسلمانوں کے اس وقت کے حالات کی غمازی کرتی ہے جب کل امت پر دورغلامی مسلط تھا۔انہوں نے کہاکہ نئے جنون سے مراد دنیاکے نئے حالات و تقاضے ہیں جن میں زندہ رہتے ہوئے مسلمان کو نبردآزماہوناہے۔ علامہ کے ہاں جنوں سے مراد جذبہ ایمانی ہے جسے بروئے کارلاکرایک مومن دنیامیں اللہ تعالی کاکلمہ بلند کرتا ہے۔ ڈاکٹر طاہر محمود نے کہاکہ اقبالؒ کی نظم اورنثرکوجمع کرنے سے ہی تفہیم اقبالؒ کاحق اداہوسکتاہے۔ دورغلامی کے باوجود اقبالؒ حالات سے مایوس نہیں تھے اورہمیشہ امیدکادروازہ کھلارکھتے تھے۔ اقبالؒ کے ہاں مقصداورفن دونوں یکجاہیں۔ پروفیسرعلی اصغرسلیمی نے کہاکہ عقل اورعشق متصادم نہیں ہیں۔بلکہ قرآن کی روسے عقل ایمان کی طرف راہنمائی کرتی ہے اورعشق ایمان پراستقامت فراہم کرتا ہے۔ جمہوریت اورخلافت بھی جداجدانہیں بلکہ جمہوریت کو اقبالؒیات کے پہناوے میں اسلام سے روشناس کرایاجاسکتاہے۔
اقبالؒ کے نزدیک عشق ایک عطیہ الہٰی اور نعمت
ازلی ہے۔ انسانوں میں پیغمبروں کا مرتبہ دوسروں سے اس لیے بلند تر ہے کہ ان کا سینہ محبت کی روشنی سے یکسر معمور اور ان کا دل بادہ عشق سے یکسر سرشار ہے۔ محبت جسے بعض نے فطرت ِ انسانی کے لطیف ترین حسی پہلو کا نام دیا ہے۔ اور بعض نے روح ِ انسانی پر الہام و وجدان کی بارش یا نورِ معرفت سے تعبیر کیا ہے۔
شاعر مشرق علامہ اقبالؒؒ بیسویں صدی کے مسلم فلسفی اور مفکر ہیں انہوں نے جدید علوم کا گہری نظر سے مشاہدہ کرنے کے بعد اسے قرآنی فکر کی کسوٹی پر پرکھا ہے۔ علامہ نے معاندانہ روئیے کے بجائے علمی رویے کو مدِّ نظر رکھا۔ شاعر مشرق کی یہ منّظم فکر انگریزی خطبات کے علاوہ اْن کے اردو اور فارسی کلام میں سامنے آتی ہے۔ متذکرہ بالا تصانیف میں علامہ ’’وقت‘‘ کے چلینجز کو عالمانہ اور فلسفیانہ سطح پر قرآنی علم کی مناسبت سے بیان کرتے ہیں۔ اْمتِ مسلمہ کے اس عظیم فرزند نے اپنی تصانیف میں قرآن حکیم سے استفادہ کیا ہے۔ اْس کے حوالے سے بے شمار نشانیوں کی نشاندہی کی ہے۔ عقل و تدبر رکھنے والے قرآنی آیاتِ مبارکہ کے مطابق ہمیشہ آفاقی نشانیوں کو دیکھ کر بے ساختہ پکار اْٹھتے ہیں۔’اے ہمارے رب! آپ نے یہ ساری کائنات فضول پیدا نہیں کی ہے۔ علامہ اقبالؒؒ اپنی فکر کے مطابق اس آیت کی توضیح کرتے ہوئے خطبات میں بیان کرتے ہیں کہ دنیا میں وسعت اور بڑھنے کی صلاحیت موجود ہے ہم کائنات میں اہم تبدیلیاں بھی دیکھتے رہتے ہیں اور لیل و نہار کی حرکت کے ساتھ ہم زمانے کا خاموش اْتار چڑھاؤ کا بھی مشاہدہ کرتے ہیں۔
عقل زمان و مکان کی پابند جبکہ عشق زمان و مکاں کی حدود سے نکل کر اْ س عالم نا محدود میں پہنچ جاتا ہے۔ جہاں حقیقت بے حجاب ہوتی ہے۔ اور یہ معرفت کا مقام ہے۔عقل کی منزل مقصود ہستی مطلق کی معرفت وہ خدا جو ہے لیکن اس کی جستجو ناتمام ہے عشق خدانما ہے جو راہ طلب میں عقل کی رہبری کرتا ہے۔گویا اقبالؒ کے نزدیک عقل اور عشق میں بنیادی تضاد اتنا زیادہ نہیں بلکہ ابتدائی مراحل پر تو عقل کی ہی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ بعض لوگ علامہ اقبالؒؒ کو صرف شاعر کے حوالے سے جانتے ہیں۔ حالانکہ اْن کی نگائہ حکمت و بصیرت زندگی کے ہر شعبہ کو خوب پرکھ اور جانچ کر اْس کے حقیقی مقام پر رکھتی تھی۔ اس لئے علامہ اقبالؒؒ شاعری کو قوم کو جگانے کا ذریعہ بنانا چاہتے تھے جو اْنہوں نے کرئہ ارض میں اپنی گرمئی گفتار اور جوشِ کردار سے نئے رنگ بھر کر اپنا نام نمایاں کر لیا تھا۔ اْن کو یقین تھا کہ اگر مسلمان قوم کے نوجوانوں کو تعلیم وتربیت ایسے معلمین کے ذریعہ ہو جو اْن میں نگہ کی سربلندی، سخن کی دلنوازی اور جاں کی پْرسوزی پیدا کر سکیں اور صحیح خطوط پر اپنی زندگیاں استوار کر سکیں تو اللہ تعالیٰ یقینا اْن کو نیابتِ الٰہی عطا کرے گا جس کے سامنے فرشتے بھی سجدہ کر کے فخر محسوس کریں گے۔
عقل ہمیں زندگی کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کا حل سمجھاتی ہے لیکن جو شے عمل پر آمادہ کرتی ہے وہ ہے عشق۔ عشق و ایمان سے زیادہ قوی کوئی جذبہ نہیں، اس کی نگاہوں سے تقدیریں بد ل جاتی ہیں۔
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زورِ بازو کا
نگاہ ِ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
اقبالؒ اگرچہ عقل کے مقابلے میں عشق کی برتری کے قائل ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ عقل کے مخالف ہیں بلکہ وہ ایک حد تک اس کی اہمیت کے قائل ہیں تاہم یہ درست ہے کہ اقبالؒ عشق کو عقل پر ترجیح دیتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک عشق سے ہی حقائق اشیا کا مکمل علمِ بصیرت حاصل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ان کے خیال میں زندگی کی ساری رونق عشق سے ہے علم و عقل انسان کو منزل کے قریب تو پہنچا سکتے ہیں لیکن عشق کی مدد کے بغیر منزل کو طے نہیں کر سکتے۔