اسلام آباد :سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس پر سماعت جاری ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی فل کورٹ سماعت کر رہا ہے، وقفے کے بعد ایک بار پھر کیس کی سماعت شروع کی، الیکشن کمیشن کے وکیل نے دلائل کا آغاز کر دیا۔
ابتدائی سماعت میں سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے عدالت سے سوال کیا کہ عدالت نے کچھ سوالات پوچھے، ان پر ابھی دلائل دوں یا جواب الجواب میں؟چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ چھوٹے دلائل ہیں تو ابھی دے دیں۔
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ کاغذاتِ نامزدگی میں چیئرمین کی سنی اتحاد کونسل سے وابستگی ظاہر ہوتی ہے، سنی اتحاد کا نشان نہ ملنے پر چیئرمین نے بطور آزاد امیدوار انتخابات لڑے، جمعیت علمائے اسلام ف میں بھی اقلیتوں کو ممبر شپ نہیں دی جاتی۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ نے ہوا میں بات کی، ایسے بیان نہیں دے سکتے، آپ دستاویزات دیں۔سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ میں دستاویزات بھی دوں گا، الیکشن کمیشن بھی کنفرم کر دے گا۔
بعد ازاں مخصوص نشستوں پر منتخب ارکان کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کیا۔ انہوں ںے کہا کہ سنی اتحاد کی طرف سے کسی امیدوار نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا جس کی وجہ سے خواتین کی لسٹ موجود نہیں اور جمع بھی نہیں کرائی گئی۔ جمع کرائی گئی لسٹ تبدیل نہیں کی جاسکتی، الیکشن کمیشن کنفرم کردےگا۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ پشاور ہائیکورٹ کے 5رکنی بنچ نے دونوں کیسز میں سنی اتحاد کیخلاف فیصلہ دیا۔ سنی اتحاد نے الیکشن کمیشن کو بتایا کہ آزاد امیدواروں شامل ہوئے ہیں۔ انہوں نے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے کہا الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو نہ دینے کا فیصلہ کیا۔ پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حیرت کی بات ہے سلمان اکرم راجہ اور فیصل صدیقی نے پشاور ہائیکورٹ کی بات ہی نہیں کی۔ دونوں وکلا نے صرف الیکشن کمیشن کے فیصلے کی بات کی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ عدالت کو بتایا گیا کاغذات نامزدگی میں حامد رضا نے سنی اتحاد کونسل سے وابستگی ظاہر کی۔ اگر یہ بات درست ہوئی تو یہ سنی اتحاد کونسل کی پارلیمان میں جنرل نشست ہوگی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ وابستگی کیلئے پارٹی ٹکٹ کا ہونا ضروری ہے۔ وکیل نے کہا فی الوقت صاحبزادہ حامد رضا کا خط ریکارڈ پر موجود ہے ان کے نشان پر کوئی الیکشن نہیں لڑا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ انتخابی نشان کا پارٹی کی جانب سے انتخابات میں حصہ لینے سے تعلق نہیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ سوال یہ بھی ہے کہ حامد رضا کو پارٹی ٹکٹ پر الیکشن لڑنے سے کیوں روکا گیا۔ الیکشن کمیشن اس معاملے کی تصدیق کرے تو کیس نیا رخ اختیار کر سکتا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان موجود تھا لیکن کسی نے اس پر الیکشن نہیں لڑا۔ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ اپیلوں میں یہ نکتہ بھی نہیں اٹھایا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قانون واضح ہے جو نکات اپیلوں میں اٹھائے گئے ہیں انہی تک محدود رہیں گے۔ ججز کا کام کسی فریق کا کیس بنانا یا بگاڑنا نہیں ہوتا ۔
وکیل مخدوم علی خان نے بتایا کہ متناسب نمائندگی کا اصول جنرل سیٹوں کی تعداد کے مطابق ہوتا ہے جسٹس منیب اختر نے کہا کہ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ف) سمیت دیگر جماعتوں کو مخصوص نشستیں دی گئیں، پی ٹی آئی امیدواروں کو مخصوص نشستیں دینے کے لیے الگ اصول اپنایا گیا۔وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ پی ٹی آئی ارکان آزاد ہوکر سنی اتحاد کونسل میں چلے گئے، پی ٹی آئی کے دو ارکان نے الیکشن کمیشن کو کہا کہ ہمیں آزاد ڈکلیئر کیا جائے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کے پاس تو ارکان اسمبلی کو آزاد ڈکلیئر کرنے کا اختیار نہیں، جسٹس اطہر من اللہ نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ ووٹر کے حق کا تحفظ کرے حقائق سب کو کھل کر بتانے چاہئیں، آج آئین کی پاسداری نہیں ہو رہی، ہم نے بطورسپریم کورٹ سرریت میں دبا لیے ہیں، لاپتا افراد کے کیسز ہیں، بنیادی حقوق کی پامالیاں ہیں، یہ سب سیاسی مقدمات نہیں انسانی حقوق کا معاملہ ہے، ہمیں کسی دن تو کہنا ہو گا بس بہت ہو گیا، میری نظرمیں آج بھی سب سے اہم درخواست اس عدالت میں 8 فروری الیکشن میں دھاندلی کی ہے۔
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے کیسے اخذ کیا کہ امیدوار تحریک انصاف کے نہیں بلکہ آزاد ہیں؟ جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے کیسے آزاد امیدوار ظاہر کردیا؟ اہم سوال ہی یہ ہے، جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ کسی امیدوار کے ساتھ زبردستی نہیں کی جاسکتی کہ نوٹیفیکیشن کے تین روز بعد اگر وہ کوئی اور جماعت میں شامل ہوجائے۔جسٹس جمال مدوخیل کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کہہ سکتے کہ امیدوار آزاد ہیں یا کسی پارٹی سے ہیں، الیکشن کمیشن نے صرف کاغذات میں امیدوار کی سیاسی جماعت سے وابستگی دیکھنی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ جو کچھ ملک میں ہو رہا تھا وہ تلخ حقیقت اور سب کے سامنے ہے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر کوئی امیدوار پارٹی وابستگی ظاہر کرکے پیچھے نہیں ہٹ سکتا تو الیکشن کمیشن کیسے اسے آزاد قرار دے سکتا ہے؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ تحریک انصاف کیس میں فریق ہے نہ کوئی منتخب نمائندہ، عدالت کے سامنے کیس سنی اتحاد کونسل کا ہے کہ مخصوص نشستیں دی جائیں،جو کیس ہمارے سامنے ہی نہیں اس حوالے سے بحث کیوں کی جا رہی ہے، الیکشن کمیشن کے فیصلے اچھے بھی ہوں گے برے بھی، جو فیصلہ چیلنج ہی نہیں ہوا اسے اچھا یا برا کیسے کہہ سکتے ہیں؟ کوئی پریشر تھا یا نہیں تھا، دنیا کو کیا معلوم، ہمارا کوئی لینا دینا نہیں، ججز اس پر فیصلہ کرتے ہیں جو ریکارڈ میں موجود ہو نہ کہ دنیا کے علم میں ہو۔
اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اعلی ترین عدالت ہوتے ہوئے سپریم کورٹ کا کام ہے کہ عوام حق رائے دہی کا دفاع کرے، بنیادی سوال یہی ہے کہ الیکشن کمیشن کسی کو ازخود کیسے آزاد قرار دے سکتا ہے؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آئین کا دفاع کرنا ہے تو آئین کے مطابق ہی شفاف انتخابات ضروری ہیں، بنیادی حقوق میں ووٹ کا حق اہم ترین ہے۔
جسٹس یحیی آفریدی نے ریمارکس دیے کہ ایک پارٹی سے وابستگی کا ڈیکلیریشن جمع کرانے والے بعد میں دوسری جماعت میں چلے گئے، اب ان امیدواروں کے بعد والے فیصلے کو دیکھا جانا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کسی امیدوار کو اختیار ہی نہیں وہ ایک پارٹی کا ڈیکلیریشن دے کر دوسری میں چلا جائے، میری نظر میں اس بات پر امیدوار نااہل بھی ہو سکتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آئینی ادارے الیکشن کمیشن نے ان لوگوں کو 2 فروری کے روز آزاد ڈیکلیئر کر دیا تھا، اس کے بعد ان امیدواروں کے پاس اور کوئی چوائس نہیں تھی، جسٹس یحیی آفریدی اور جسٹس مندوخیل نے سوالات اٹھائے، مسئلہ مگر الیکشن کمیشن کے دو فروری کے آرڈر سے پیدا ہوا ہے، الیکشن کمیشن نے اس عدالت کے انتخابی نشان والے فیصلے کی غلط تشریح کی تھی، اس بات پر نتائج لوگ کیوں بھگتیں؟
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ میری نظر میں ٹکٹ لے کر پارٹی تبدیل کرنے والے پر آرٹیکل 63 اے لاگو ہوگا، فارم 33 سے واضح ہوگا کہ کون کس جماعت سے ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی کے تمام امیدواروں کو آزاد قرار دیا گیا۔جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے کس بنیاد پر سیاسی جماعت کے امیدواروں کو آزاد قرار دیا؟ لاکھوں افراد نے ووٹ دیا ان کے حق کا تحفظ کرنا ضروری ہے، امیدواروں نے خود کو تحریک انصاف سے الگ نہیں کیا۔
اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ انتخابات صاف شفاف ہونے چاہیں مگر سوالات بہت سنجیدہ اٹھے ہیں، موجودہ انتخابات کے طریقہ کار پر بھی سوالات اٹھے ہیں، سپریم کورٹ کی ڈیوٹی ہے کہ دیکھے کوئی سیاسی انجینئرنگ نہیں ہوئی، اگر انتخابات شفاف نہیں ہوئے تو آئین کی خلاف ورزی ہورہی ہے اور ہم اپنے حلف کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔جسٹس عرفان سعادت نے دریافت کیا کہ تحریک انصاف اور تحریک انصاف نظریاتی میں کیا فرق ہے؟کبھی تحریک انصاف ہوجاتی ہے کبھی تحریک انصاف نظریاتی ان میں فرق بتائیں؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے استفسار کیا کہ کیا تحریک انصاف نظریاتی سیاسی جماعت ہے؟ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ تحریک انصاف نظرثانی سیاسی جماعت ہے جس کا انتخابی نشان بلے باز ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے دن سے کہہ رہا تحریک انصاف نے ایسا کیوں کیا؟ اپنی پارٹی میں رہنا چاہیے تھا، سنی اتحاد میں شامل نہیں ہونا چاہیے تھا، ہم نے تو نہیں کہا کہ سنی اتحاد میں شامل ہوں۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ انتخابات کو سپریم کورٹ میں دیکھا جارہا، الیکشن کمیشن نے امیدواروں کو آزاد کیسے ظاہرکیا؟ کسی سیاسی جماعت نہیں بلکہ الیکشن کے حوالے سے بات کررہے،جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ میں اپنے موقف پر قائم ہوں کہ پارٹی وابستگی ظاہر کرکے جماعت تبدیل کرنے والا نااہل تصور ہوگا۔
سارا معاملہ شروع ہی سیاسی جماعت کے امیدواروں کو آزاد قرار دینے سے ہوا، جسٹس منصور علی شاہ
جسٹس منصور علی شاہ نے بتایا کہ سارا معاملہ شروع ہی سیاسی جماعت کے امیدواروں کو آزاد قرار دینے سے ہوا، کیسے ممکن ہے کہ اس بنیادی سوال کو چھوڑ دیں؟ جسٹس عائشہ ملک نے دریافت کیا کہ سنی اتحاد کونسل اپنا کیس جیتے یا ہارے، دوسری جماعتوں کو اس سے کیا فائدہ ہوگا؟ مخصوص نشستیں متناسب نمائندگی کے اصول پر ہی مل سکتی ہیں، متناسب نمائندگی کے اصول سے ہٹ کر نشستیں نہیں دی جا سکتیں، اضافی نشستیں لینے والے بتائیں کہ ان کا مؤقف کیا ہے؟ دیگر جماعتوں کو چھوڑیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا ہمیں آئین دوبارہ لکھنا شروع کر دینا چاہیے؟ جسٹس عائشہ نے کہا کہ آئین میں پہلے سے درج متناسب نمائندگی کا فارمولہ سمجھائیں! فارمولا کیا ہے؟اس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ سنی اتحاد نے انتخابات میں حصہ لیا نا مخصوص نشستوں کی لسٹ فراہم کی، اس موقع پر جسٹس عائشہ نے دریافت کیا کہ ایسے کیا متناسب سیٹیں دیگر سیاسی جماعتوں کو مل جائیں گی؟ فرض کریں سنی اتحاد کو نہیں ملتیں مخصوص نشستیں لیکن آپ کو کیسے ملنی چاہیے ؟
مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین کے وکیل نے جواب دیا کہ میں فرضی سوالات کے جوابات نہیں دوں گا، جسٹس منیب اختر نے کہا اگر کوئی ممبر استعفیٰ دے دے یا انتقال کرجائے تو ایسا تو نہیں پارلیمنٹ کام کرنا چھوڑ دے گی۔چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کوئی جج ریٹائر ہوجائے تو سپریم کورٹ کام کرنا تھوڑی چھوڑ دے گی؟ اگر کوئی ممبر نہیں یا نشست خالی ہے تو ضمنی انتخابات ہو جائیں گے۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا لپ ماضی میں بھی انتخابات میں پارلیمنٹ کو مکمل کرنے کے لیے مخصوص نشستیں دی گئیں،وکیل مخدوم علی خان نے بتایا کہ ایسا کیس کبھی نہیں آیا کہ کسی پارٹی نے انتخابات لڑے نہیں اور مخصوص نشستیں مانگ رہی ہو۔اس پر جسٹس یحیی آفریدی نے دریافت کیا کہ کیا مخصوص نشستیں خالی رہ سکتی ہیں؟ وکیل نے بتایا کہ نہیں، مخصوص نشستیں خالی نہیں رہ سکتیں۔
آمر آئے تو ساتھ ہوجاتے، جمہوریت آئے تو چھریاں نکال لیتے ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ جب آمر آئے سب ساتھ مل جاتے ہیں، وزیر اور اٹارنی جنرل بن جاتے ہیں اور جب جمہوریت آئے تو چھریاں نکال کر آجاتے ہیں، اپنے آئین پر عملدرآمد کے بجائے دوسرے ممالک کی مثالیں دی جاتی ہیں، آئین کا تقدس ہے اور اس پر عمل کرنا سب پر لازم ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ تاریخ بہترین استاد ہے ورنہ بار بار غلطیاں کی جاتی ہیں، وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ میں کبھی نہیں کہوں گا کہ میں نے غلطیاں نہیں کیں، سنی اتحاد نے جس طرح کیس کو عدالت میں پیش کیا ویسے ہی اسے دیکھنا چاہیے، سنی اتحاد نے مخصوص نشستوں سے متعلق لسٹ جمع نہیں کروائی، سیاسی جماعتوں کو انتخابات سے قبل مخصوص نشستوں کی لسٹ مہیا کرنا ہوتی ہیں۔ جو سیاسی جماعتیں انتخابات میں حصہ نہیں لے رہیں ان پر مخصوص نشستوں کی لسٹ مہیا کرنا لازم نہیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ انتخابات کو سیکرٹ بیلٹ کے تحت ہونا چاہیے سیکرٹ بیلٹ کہاں ہے؟
وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ ووٹرز کو معلوم ہوتا ہے کہ ووٹ دینے والی جماعت کی مخصوص نشستوں کی لسٹ کیا ہے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ہم ججز اور الیکشن کمیشن بھی آئین کی پاسداری کا حلف لیتا ہے۔وکیل مخدوم علی خان نے بتایا کہ کوئی نہیں کہتاکہ ووٹرز سے ان کا حق چھین لیا جائےگا، جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ خواتین کی نمائندگی کو کیسے نظرانداز کیا جاسکتا ہے؟ اقلیتوں اور خواتین کو نمائندگی دینا اصل مقصد ہے۔
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ آئین میں الیکشن میں منتخب ہونے کا لفظ لکھا ہے، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ صدر اور سینٹ انتخابات کے لیے الگ الیکٹوریٹ دیا ہوتا ہے، کیس میں لگ رہا جیسے انتخابات ہوہی نہیں رہے لیکن آپ کہہ رہے کہ الیکشن ہورہا ہے، آپ مجھے دکھا دیں کہ کوئی الیکشن ہورہا ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ایسی باتوں میں پھنس گئے تو دیگر کو سن نہیں پائیں گے، آج کیس مکمل کرنا ہے۔
بعد ازاں ، وکیل مخدوم علی خان نے مزید کہا کہ سیاسی جماعت اگر خواتین یا اقلیتی نشستوں کے لیے لسٹ نہیں دیتی تو کیا پارلیمنٹ میں سیٹ خالی رکھی جائےگی؟ انتخابات میں سیاسی جماعت ہی صرف سیٹ جیٹ سکتی ہے، جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ سیاسی جماعت کون ہیں؟ وکیل نے جواب دیا کہ مخصوص نشستوں کی لسٹ دینے والی سیاسی جماعت کہلاتی ہے، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ یعنی جو لسٹ نہیں دیتی اسے سیاسی جماعت نہیں کہیں گے۔
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ جب کوئی سیاسی جماعت سیٹیں جیتے تو انتخابات میں جیت کا معلوم ہوتا ہے، جیتنے والی سیاسی جماعتوں میں آزاد امیدوار شامل ہوتے ہیں، جس سیاسی جماعت کے پاس سیٹ ہی نہیں اس میں آزاد امیدوار شامل نہیں ہوسکتے، جس سیاسی جماعت کی مخصوص نشستوں کی لسٹ ہی نہیں تو الیکٹوریٹ پر عملدرآمد نہیں کیا جارہا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ ایک سیاسی جماعت کے منشور میں اقلیتی خانہ شامل نہیں تو اقلیتوں کی لسٹ نہیں دی جائےگی، اگر خواتین یا اقلیتوں کی لسٹ نہیں دی گئی تو اثرات تو ہوں گے، اگر پرائز بانڈ خریدا ہی نہیں تو پرائز بانڈ نکل کیسے آئے گا؟ خریدنا تو ضروری ہے۔اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عوام کے حقوق کو کبھی اہمیت نہیں دی گئی، ہمیں درخواستگزاروں نے بتایا کہ اہم درخواستیں زیرالتوا ہیں۔
وکیل مخدوم علی خان نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ درخواستیں کیوں زیرالتوا ہیں اس کا جواب عدالت دے، وکیل تو نہیں دے سکتا، اگر سیاسی جماعت نے انتخابات سے قبل لسٹ نہیں دی اور بعد میں دی تو یہ مزید غیر جمہوری ہوگا، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ حالیہ انتخابات میں آزاد امیدواروں نے دیگر سیاسی جماعتوں کی نسبت سیٹیں زیادہ جیتیں، مسئلہ یہ ہے کہ کس حساب سے سیٹیں بانٹی جائیں گی؟ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کو 17 اور بعد میں مزید 10 مخصوص نشستیں دی گئیں، آپ کہہ رہے اگر سنی اتحاد کونسل سیاسی جماعت رہتی تو 17 سیٹیں ہوتیں، اب جب نہیں تو 27 سیٹیں مسلم لیگ (ن) کی ہوگئیں۔
اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارلیمنٹ میں دو طریقہ کار سے سیٹیں تقسیم گئی ہیں، وکیل نے بتایا کہ آزادامیدوار نے ایسی سیاسی جماعت میں شامل ہونا ہوتا جس نے کم سے کم ایک سیٹ جیتی ہو، چیف جسٹس نے کہا کہ کیا صرف یہی ضروری ہے کہ سیٹیں زیادہ ہوں یا انتخابات میں خواتین، اقلیتوں کی نمائندگی پر بات کرنا ضروری ہے؟ اقلیتی، خواتین کسی سیاسی جماعت میں ہیں یا نہیں لیکن ان کی نمائندگی کو محفوظ کرنا ہے، تاریخ پر بات کرنی چاہیے اور تاریخ سے سیکھنا چاہیے۔
وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ اگر دو سیاسی جماعت ہیں تو انہی پر مخصوص نشستیں بانٹ دی جائیں گی، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ مخصوص نشستوں سے انتخابات کا رزلٹ آسانی سے تبدیل کیا جاسکتا، دو سیاسی جماعتیں ہیں تو انہیں پر مخصوص نشستیں بانٹ دی جائیں گی؟ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ مخصوص نشستیں بانٹنے کا طریقہ ہر انتخابات میں تبدیل ہوتا رہتاہے، وکیل نے بتایا کہ میں سیاسی جماعتوں کی لسٹ دیکھنے کا نہیں کہہ رہا، آئین کہہ رہا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی لسٹ دیکھیں۔
اس پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ سسٹم کی خوبصورتی ہے کہ اقلیتیں بھی آپ کی سیاسی جماعت میں آکر بیٹھیں، اگر سیاسی حریف نہیں پسند تو سسٹم کی خوبصورتی ہے کہ دونوں حریف ساتھ بیٹھیں گے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اقلیت، خواتین کو ضرور پارلیمنٹ میں نمائندگی ملنی چاہیے، ماضی کے انتخابات میں ن لیگ ، پیپلزپارٹی کہیں نہ کہیں متاثرہ رہی لیکن سپریم کورٹ میں مدد کے لیے سامنے نہیں آئی، جیسا 2018 میں ہوا اب بھی ویسا ہی ہورہاہے، متاثرہ ایک ہی سیاسی جماعت رہی، ہم نے اپنی تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا، ابھی تو ہم موجودہ درخواستوں پر کرلیں گے بات لیکن مستقبل میں ایسا وقت ضرور آئےگا جب سپریم کورٹ دوبارہ افسوس کرے گی۔
اس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ سنی اتحاد کونسل نے نا لسٹ دی اور نا ہی انتخابات میں حصہ لیا، جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ 2 فروری 2024 والا الیکشن کمیشن کا فیصلہ سپریم کورٹ کی غلط تشریح پر ہے، کیا ہمیں الیکشن کمیشن کے غلط تشریح پر مبنی فیصلہ نہیں دیکھنا چاہیے یا نظر انداز کردینا چاہیے؟جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر ایک سیاسی جماعت ہے جو بہت مشہور ہے لیکن انتخابات سے بائیکاٹ کرلیتی ہے تو کیا عوام کی سپورٹ کے باوجود بائیکاٹ کرنے والی پارٹی کو مخصوص نشستیں ملیں گی؟
اسی کے ساتھ مخصوص نشستیں حاصل کرنے والی جماعتوں کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل مکمل ہوگئے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر روسٹرم پر آگئے، انہوں نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ انتخابات کا شیڈول ایک اہم دستاویز ہوتا ہے جس میں مخصوص اور جنرل سیٹیں شامل ہوتی ہیں، جنرل اور مخصوص نشستوں کے لیے کاغذات نامزدگی کے لیے ایک تاریخ دی جاتی، مخصوص نشستوں کابھی نوٹیفکیشن ہوتا ہے، فارم 33 جنرل اور مخصوص نشستوں کے لیے ہوتا ہے، ریٹرننگ افسران مخصوص، جنرل نشستوں کے فارم 33 کی اسکروٹنی کرتے ہیں۔
اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا کہ کیا الیکشن کمیشن فیصلہ کرےگا کہ امیدوار کی کس سیاسی جماعت سے وابستگی ہے؟ وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ فارم 66 مخصوص نشستوں کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کی جانب سے دی گئی لسٹ ہوتی، جنرل اور مخصوص نشستوں کی لسٹ کا طریقہ کار بلکل ایک طرح کا ہے، کاغذات نامزدگی پہلی اسٹیج ہوتی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ خواتین، اقلیتوں کی سیٹوں کی اہمیت اتنی ہی ہے جتنی جنرل نشستوں کی ہے، خواتین کی مخصوص نشست والے وزیر اعظم کے لیے بھی امیدوار ہوسکتے ہیں۔
اسی کے ساتھ عدالت نے مقدمے کی سماعت میں 3 بجے تک وقفہ کیا ، جسے اب دوبارہ شروع کر دیا گیا ہے۔ اور الیکشن کمیشن کے وکیل دلائل دے رہے ہیں۔