پنجاب اسمبلی کا اجلاس وزیر اعلیٰ کے رن آف انتخاب کیلئے شروع تو ہوا مگر سپریم کورٹ کے چار بجے اجلاس بلانے کے حکم کی پروا نہیں کی گئی، چودھری پرویز الٰہی نے اپنی واضح اکثریت شو کر دی مگر ڈپٹی سپیکر دوست مزاری نے چودھری شجاعت کے خط کا سہارا لے کر میاں حمزہ شہباز کو اکثریت دے دی اور یوں حمزہ شہباز وزیر اعلیٰ بن گئے اور انہوں نے اس کا حلف بھی اٹھا لیامگر ان کے حلف کی گونج ابھی مدہم بھی نہیں پڑی تھی کہ وہ ایک با اختیار وزیر اعلیٰ سے ٹرسٹی وزیر اعلیٰ بنا دیے گئے۔
رن آف الیکشن کا مرحلہ جس خط کے ذریعے جیتا گیا وہ آخری وقت تک خفیہ رہا ،پارٹی سربراہ نے اپنی پارٹی کے جن ارکان اسمبلی کو اپنی ہی پارٹی کے امیدوار کو ووٹ نہ دینے کی ایڈوائس دی انہیں خبر ہی نہ تھی کہ کوئی ایسا خط آیا ہے، ڈپٹی سپیکر نے ووٹنگ کے بعد وہ خط نکالا اور پڑھ دیا ،آئینی ماہر اعتزاز احسن کہتے ہیں کہ خط سے بے خبر جن ارکان نے ووٹ کاسٹ کیا وہ شمار ہو گا کہ ووٹ ڈالنے کے بعد انہیں پارٹی لیڈر کی ایڈوائس ملی،آئینی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ پارلیمانی معاملات میں حتمی فیصلہ پارلیمانی لیڈر کا ہوتا ہے پارٹی سربراہ کا نہیں،یوں کہا جا سکتا ہے رن آف الیکشن کا مرحلہ بھی ڈپٹی سپیکر نے اپنی خواہش کے مطابق نبٹایا جس میں مد مقابل امیدوار کے اپنے ووٹ کو بھی شمار نہیں کیا گیا،پارلیمانی تاریخ کی یہ سب سے بڑی حیرت انگیز بات ہے۔
اس سے قبل وزیر اعلیٰ کے انتخاب کیلئے ہر تاخیری حربہ آزمایا گیا، جو ہمارے جیسے ملکوں میں اب جائز بن چکا ہے ، آصف زرداری طلسمی چھڑی لے کر چودھری شجاعت کی ’’گوڈا بوسی‘‘ کیلئے چودھری ہاؤس کے چکر لگاتے رہے،وزیر اعظم کے انتخاب کے دوران آصف زرداری کی جادو گری سے چودھری خاندان میں سیاسی تقسیم ہوئی اور وزیر اعلیٰ کے انتخاب سے قبل چودھری خاندان کی تیسری نسل میں اختلاف کے بعد افتراق پیدا ہو گیا،مونس الٰہی جو اس کھیل کے آغاز سے قبل ہی عمران خان کیساتھ کھڑے تھے انہوں نے والد پرویز الٰہی کو بھی عمران خان کی حمایت پر رضامند کر لیا، مگر دوسری جانب چودھری شجاعت حسین کے بیٹے چودھری سالک جوحکومتی اتحاد کا حصہ اور کابینہ میں شامل ہیں نے اپنے والد چودھری شجاعت کو حکومتی اتحاد کا حصہ رہنے پر مجبور کیا جو ان کا حق ہے، الیکشن سے ایک رات قبل تک آصف زرداری نے چودھری ہاؤس کے دو چکر لگائے مگر چودھری شجاعت کا ایک ہی جواب تھا کہ’’ق لیگ کا ووٹ پرویز الٰہی کا ہے‘‘ لیکن وزیر اعلیٰ کے الیکشن والے روز آصف زرداری نے چودھری ہاؤس کی یاترا کی،اس سے قبل چودھری شجاعت کی طرف سے ق لیگ کے ارکان کے نام ایک خط کی خبر چلی جس میں انہیں ہدایت دی گئی کہ عمران خان کے امیدوار کو ووٹ نہ دیا جائے‘‘ اور بعد ازاں یہ خط اچانک رزلٹ کے اعلان کے وقت ڈپٹی سپیکر کی میز سے بر آمد ہوا۔
آصف زرداری کی آخری یاترا نواز شریف کی ہدائت پر تھی اور غیر متوقع طور پر آخر کار چودھری شجاعت نے حکومتی اتحاد کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر لیا،اس کھیل کے پیچھے کس کی تدبیر کارگر ہوئی کس نے کیا فائدہ اٹھایا؟ اس سے قطع نظر دکھ کی بات چودھری خاندان کی تقسیم ہے کہ تیسری نسل ایک دوسرے سے بات کرنے کو بھی آمادہ نہیں،تمام تر اختلافات کے باوجود چودھری خاندان نے کبھی وضعداری کا دامن نہ چھوڑا اور ایک دوسرے کیخلاف کبھی بیان نہ دیا، مگر یہ سلسلہ اب یہاں تھمتا دکھائی نہیں دیتا اور لگتا ہے اب چودھری ظہور الٰہی کی سیاسی وراثت بھی تقسیم ہو گی۔
صورتحال کو آئین کی روشنی میں دیکھا جائے تو آئین کے مطابق پارٹی سربراہ پارلیمانی معاملات میں کوئی فیصلہ نہیں دے سکتا آئینی طور پر یہ اختیار پارلیمانی پارٹی کا ہوتا ہے اور ق لیگ کے پارلیمانی لیڈر پنجاب اسمبلی چودھری ساجد ہیں اس لئے وزیر اعلیٰ کے الیکشن میں فیصلہ پالیمانی پارٹی کا سربراہ ہی کر سکتا اس لئے چودھری شجاعت کے خط کی کوئی آئینی حیثیت نہیں رہتی، دیکھیں اب پنجاب کی وزارت اعلیٰ کیلئے جاری اس کشمکش کا فیصلہ اعلیٰ عدلیہ کے سامنے ہے ،آئینی ماہرین کے مطابق غیر منتخب پارٹی سربراہ کے بجائے پارلیمنٹ میں پارلیمانی پارٹی کا فیصلہ ہی چلتا ہے،یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ الیکشن پراسیس کے آغاز کے وقت پارلیمانی پارٹی نے جو فیصلہ دیا وہی حتمی ہوتا ہے عین ٹائم پر فیصلوں کی تبدیلی کی بھی کوئی آئینی حیثیت نہیں،اس آئینی شق کے تحت چودھری شجاعت کے خط کی کوئی آئینی حیثیت نہیں رہتی،مونس الٰہی نے آخری وقت بھی چودھری شجاعت سے ملاقات کی ان کا کہنا ہے کہ میں صرف خاندان کا اتحاد بچانے آیا ہوں ورنہ پارلیمانی پارٹی ہمارے حق میں فیصلہ دے چکی ہے،لیکن ان کی یہ کوشش بھی ناکام ہوئی جس کے بعد وہ دل گرفتہ واپس چلے گئے۔
واقفان حال کا کہنا ہے ،اگر چہ اس کی تصدیق نہیں ہو سکی کہ آصف زرداری نے چودھری شجاعت سے کچھ وعدے وعید کیے ،اس کا پتہ تو آئندہ دنوں میں لگے گا ،ہو سکتا ہے ان سے آئندہ سیٹ اپ اور الیکشن کے لئے اہم معاملات طے کئے گئے ہوں ،تاہم ایک بات جو میرا گمان ہے کہ آصف زرداری، شریف خاندان سے سیاسی میدان میں مقابلہ نہ کر سکے اب ان کو ساتھ ملا کر پنجاب میں پیپلز پارٹی کو مضبوط کرنا چاہ رہے ہیں ،عدلیہ وزارت اعلیٰ پنجاب کے الیکشن کے حوالے سے جو فیصلہ صادر کرتی ہے اس کے بعد مستقبل کی سیاست کا اندازہ لگایا جا سکے گا،سچ یہ کہ آصف زرداری ان حالات میں سب سے زیادہ فائدہ میں ہیں۔ انہوں نے خود کو کامیاب سیاستدان کے طور پر منوایا ورنہ ن لیگ فوری الیکشن کرانے کی حامی تھی مگر زرداری نے باقی ماندہ اسمبلی کی مدت پوری کرنے کیلئے نواز شریف کو منایا، فوری الیکشن کی صورت میں عمران خان ہمدردی کا ووٹ اور اپنی جارحانہ سیاست اور بیانیے کے سبب کامیاب ہوتے نظر آ رہے تھے۔
اب آصف زرداری نے خود کو ناراض پرانے ساتھیوں کو راضی کرنے اور سیاسی جوڑ توڑ کیلئے وقف کر دیا ہے، انکی نظر آج نہیں تو کل بلاول کو وزیر اعظم بنوانے پر ہے ، ان کو خاصی پذیرائی بھی مل رہی ہے،پرانے بہت سے ساتھیوں کو وہ واپس پارٹی میں لانے میں بڑی حد تک کامیاب ہو رہے ہیں،سندھ کی سیاست انکی مٹھی میں ہے ،زرداری کے پی کے میں بھی پارٹی کی تنظیم نو کی کوشش میں مصروف ہیں،بلوچستان پر بھی ان کی گہری نظر ہے،عمران خان کیخلاف حالیہ تحریک کے تانے بانے بننے میں زرداری کا ہی مین کردار ہے،بلوچستان کی سیاسی پارٹیوں اور ایم کیو ایم کو عدم اعتماد تحریک میں پی ڈی ایم کا ساتھ دینے کیلئے بھی انہوں نے منایا،نیا سیاسی منظر جو اگر چہ دھند میں لپٹا ہے مگر لگ رہا ہے کہ آصف زرداری اپنی جادوگری کے زور پر آئندہ الیکشن میں کوئی کارنامہ انجام دینے والے ہیں،جس کے بعد پنجاب پر بھی پیپلز پارٹی کی گرفت مضبوط ہو جائے گی۔