پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں تا حال جس قسم کی نوٹنکی ہو رہی ہے، اس پہ قلم اٹھانا اس وقت تک مناسب نہیں جب تک اونٹ کسی کروٹ بیٹھ نہ جائے۔ تب تک کیوں نہ ہم وطنِ عزیز کے زرعی مسائل کا ذکر کر لیں۔ تو قارئین کرام کو یاد دلاتے ہوئے بات شروع کرتا ہوں کہ ایک وقت تھا جب پاکستان کو چاندی کا دیس کہا جاتا تھا۔ پاکستان کو چاندی کا دیس کہنے کی وجہ یہاں دنیا کی اعلیٰ ترین اور انتہائی وافر مقدار میں پیدا ہونے والی کپاس تھی۔ مگر پھر کیا ہوا؟ ہمارے موقع پرست اور خود غرض جاگیرداروں اور وڈیروں نے کرپٹ بیوروکر یسی کی مدد سے کپاس کی جگہ گنے کی بوائی شروع کر دی۔ گنے کی پیداوار سے ان کی شوگر ملوں کو فائدہ ہوا سو ہوا، مگر اس نے ہماری بہترین زرعی زمین کو بنجر کر کے رکھ دیا کیوں کہ گنے کی فصل زمین سے سب پانی چوس لیتی ہے۔ بات کو آگے بڑھاتے ہوئے اگر ملک کی زراعت کا جائزہ لیا جائے تو بات کچھ یوں ہے کہ پاکستان کا کل رقبہ 79.6 ملین ایکڑ ہے جس میں سے 23.77 ملین ایکڑ زرعی رقبہ ہے جو کل رقبے کا 28 فیصد بنتا ہے۔ اس میں سے بھی 8 ملین ایکڑ رقبہ زیر کاشت نہ ہونے کے باعث بے کار پڑا ہے۔ حالانکہ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کا ماحول اور موسم بھی زراعت کے لیے بہترین زونز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس طرح پاکستان میں ہمہ قسم کی غذائی اشیاء کی پیداواری صلاحیت موجود ہے۔ اس کی 75 فیصد سے زائد آبادی زراعت کے پیشے سے وابستہ ہے۔ ملک کی مجموعی قومی پیداوار میں زراعت کا حصہ 21 فیصد ہے۔ یہ شعبہ ملک کے 45 فیصد لوگوں کے روزگار کا ذریعہ ہے۔ زراعت کا شعبہ لوگوں کو خوراک اور صنعتوں کو خام مال (Raw Materials) کی فراہمی میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستانی برآمدات سے حاصل ہونے والے زرِ مبادلہ (exchanges) کا 45 فیصد زرعی تجارت سے حاصل ہوتا ہے۔ پاکستان میں پیدا ہونے والی کپاس، گندم، گنا اور چاول کی فصل بیرونی منڈیوں میں خاص اہمیت رکھتی ہے اور ملک ان فصلوں کی بدولت قیمتی زرمبادلہ حاصل کرتا ہے۔ اس کے باوجود ملکی زرعی شعبے کی ترقی کی رفتار نہایت سست ہے۔ ہمارے مقابلے میں دنیا کے دیگر ملک زیادہ پیداوار دے رہے ہیں۔ اگر زرعی ترقی میں حائل رکاوٹوں پر غور کیا جائے تو کئی وجوہات سامنے آتی ہیں۔ ہمارے کسان مہنگائی کے بوجھ تلے دبے جا رہے ہیں۔ کھاد نہ صرف مہنگی ہو رہی ہے بلکہ کاشت کے دنوں میں ناپید ہو جاتی ہے۔ دیگر زرعی لوازمات بھی ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں اضافے کے باعث مہنگے ہو رہے ہیں۔ ہماری حکومت نے زرعی ٹیکس اور دیگر کئی صورتوں میں اشیاء کو شدید مہنگا کر دیا ہے۔ غریب پہلے مہنگائی کی وجہ سے سبزی کھانے کو ترجیح دیتا تھا مگر اب وہ بھی مہنگائی
کے باعث غریبوں کی پہنچ سے دور ہو رہی ہے۔ موجودہ حالات میں کسان کھیتی باڑی کے بجائے اپنی زرعی زمینیں فروخت کر کے شہروں میں منتقل ہو رہے ہیں۔ اگر یہی حالات رہے تو ملکی زرعت حال مکمل طور پر ٹھپ ہو جائے گی۔ زراعت خود کفالت کا بہترین ذریعہ ہے۔ زرعی شعبہ ملک کی آبادی کو خوراک مہیا کرتا ہے اور یہی پاکستان کی آبادی کی روزگار کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اور پاکستان کی زرعی حکمت عملی میں خود کفالت کے اصولوں کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ زراعت پاکستان کے لیے ایک جڑ کی حیثیت رکھتی ہے۔ لیکن زرعی شعبے کا حصہ ہماری معیشت میں کم ہوتا جا رہا ہے۔ اس وقت ملک کی جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ تقریباً 18 فیصد ہے۔ اس کے علاوہ جی ڈی پی میں 20 فیصد انڈسٹری اور 60 فیصد سروسز کا حصہ ہے۔ ملک کی آبادی کا بڑا حصہ زرعی شعبے سے وابستہ ہے اور زراعت ان کے روزگار کا اہم جزو ہے۔ اس وقت ملک کو جو سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے وہ پانی ہے۔ پانی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے ہمیں اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ پانی کی قلت کے باعث کاشتکاروں کو فصلوں کی کاشت میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے باعث ہر آنے والے سال میں یا تو فصلوں کی پیداوار میں کمی آ رہی ہے یا پھر فصلوں کی کوالٹی متاثر ہو رہی ہے۔ اچھی فصل کے حصول کے لیے مناسب اور بروقت پانی بہت زیادہ ضروری ہے۔ ہمارے کاشتکار اور کسانوں کی اکثریت غیر تعلیم یافتہ ہے اور انہیں جدید طریقوں سے آگاہی حاصل نہیں ہے۔ انہیں جراثیم کش ادویات کے استعمال، معیاری بیجوں کے انتخاب اور مصنوعی کھاد کے مناسب استعمال کے بارے میں زیادہ علم نہیں ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کی فی ایکڑ پیداوار ملک کی ضروریات کے لحاظ سے بہت کم ہے۔ وہ کاشتکاری کے صرف ان روایتی طریقوں پر یقین رکھتے ہیں جو انہوں نے اپنے بزرگوں سے سیکھے ہیں۔ نئی اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے کسان بہتر پیداوار حاصل کر سکتے ہیں مگر اس کے لیے کسانوں اور کاشتکاروں کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے اور زراعت کے شعبہ کی ترقی کے سلسلہ میں بہتر اقدامات کیے جائیں اور سیلاب کی صورت حال کے پیش نظر ایسی حکمت عملی بنائی جائے جس سے ان علاقوں کو محفوظ رکھا جا سکے جو زیر کاشت ہیں۔ ڈیم کا بننا ہمارے لیے اس وقت اشد ضروری ہے کیونکہ اس سے سیلاب کو کافی حد تک روکا جا سکتا ہے اور پانی کو ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔ اگر حکومت زراعت کے شعبہ کی اہمیت کے پیش نظر اس کو اپنی ترجیحات میں شامل کر لے اور اس کے گونا گوں مسائل پر توجہ دے تو یہ بآسانی حل ہو سکتے ہیں۔ اس سے زراعت کا شعبہ دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرے گا۔ یوں پاکستان خوش حال ہو گا اور اس کے عوام آسودہ ہوں گے۔ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے وافر افرادی قوت سے بھی نوازا ہے جو باصلاحیت اور ہنرمند ہے۔ کمی صرف باہمت اور پُر عزم قیادت کی ہے جو دیانتدار ہو اور پاکستان سے مخلص بھی ہو۔ پاکستان واحد ملک ہے جہاں زرعی آلات پر ٹیکس عائد ہے۔ حکومت نے اپنے فیصلوں میں زراعت کو کبھی ترجیحی طور پر نہیں لیا۔ اس لیے یہ شعبہ حکومتی عدم دلچسپی کا شکار ہے۔ حکومت کو زراعت کی ترقی کے لیے انفراسٹرکچر پر توجہ دینی چاہیے۔ ہمارا ملک زراعت کے شعبے میں جب ہی ترقی کر سکتا ہے جب حکومت خود نیک نیتی سے زرعی شعبے کی ترقی پر توجہ دے اور زرعی ترقی کے لیے اقدامات کرے۔ مگر یہاں کے دولت کے پجاری مگرمچھوں کے دانت بہت لمبے ہیں۔ انہیں ہماری کرپٹ بیوروکریسی کی تائید حاصل ہے۔ اس کی وجہ سے ہماری زرعی زمینوں کو جس انتہائی خطرناک مسئلے کا سامنا ہے وہ یہ ہے کہ ان زرخیز زمینوں کو ہاؤسنگ سوسائٹیز میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، آپ صرف چکوال کے نواحی علاقوں سے اگر اسلام آباد لاہور کی موٹروے کی جانب سفر کریں تو آپ دیکھیں گے کس ظلم سے وہاں کی زرعی زمینوں پہ پے در پے ہاؤسنگ سوسائٹیز تعمیر ہو رہی ہیں۔ اور یہ سب کرنے وا لے حکمران جماعت کے وہی کرتا دھرتا ہیں جن کے نام آپ آئے دن اخباروں میں پڑھتے رہتے ہیں۔