گزشتہ بدھ 21جولائی کو یعنی عیدالاضحی کے روز نظامی خاندان کے سپوت عارف نظامی کے عارضہ قلب کی وجہ سے انتقال پر اس خاندان کی پاکستان کے اقلیم صحافت پر پون صدی کی حکمرانی کا خاتمہ ہو گیا۔ خاندان کے دو بڑے معروف صحافیوں حمید نظامی اور مجید نظامی نے یکے بعد دیگرے ہمارے ملک کی صحافتی سلطنت پر اس طرح اپنا سکہ جمائے رکھا کہ پاکستان کی سیاست پر ان سے زیادہ اثرانداز ہونے والا اور کوئی صحافی نہ تھا۔ اگرچہ ان کے عہد میں بڑے بڑے نامور صحافیوں، ایڈیٹروں اور ان کے اخبارات نے اپنی موجودگی کو ثابت کیا۔ حمید نظامی مرحوم نے 1940ء میں قرارداد لاہور کی منظوری کے فوراً بعد مطالبہ پاکستان کی حمایت میں ہفت روزہ نوائے وقت کا اجراء کیا جو جلد باقاعدہ روزنامے میں تبدیل ہو گیا۔ انہیں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے زمانے سے قائداعظم کا اعتماد حاصل تھا۔ چنانچہ ان کے تیکھے قلم نے زوردار اداریوں اور آل انڈیا مسلم لیگ کے حق میں خبروں کی خصوصی اشاعت کا بیڑا اٹھایا جب متحدہ پنجاب کی مسلمان صحافت پر روزنامہ زمیندار،انقلاب اور احسان کا غلبہ تھا۔ مولانا ظفر علی خاں کا زمیندار گھر گھر پڑھا جاتا تھا۔ یہ مسلم لیگ کا حامی تھا لیکن اس پر مولانا کی شخصیت چھائی رہتی تھی۔ عبدالمجید سالک اور غلام رسول مہر کا انقلاب اپنے ایڈیٹروں کے علمی اور ادبی مقام و مرتبہ کی وجہ سے خاص اہمیت رکھتا تھا۔ انقلاب اگرچہ ہندو کانگریس کا مخالف تھا لیکن پنجاب کی سیاست میں وہ انگریز حکومت کی سرپرستی میں وجود میں آنے والی یہاں کی حکمران جماعت یونینسٹ پارٹی کا حامی تھا۔ روزنامہ احسان مسلم لیگ کا ساتھ دینے کے باوجود زیادہ مقبولیت حاصل نہ کر سکا۔ اس ماحول میں حمید نظامی کے نوائے وقت نے بیک وقت کانگریس اور صوبائی سطح پر طاقتور یونینسٹ پارٹی کی مخالفت کا پرچم بلند کر کے قائداعظم اور آل انڈیا مسلم لیگ کی پرزور ترجمانی کا فریضہ ادا کیا۔ قیام پاکستان کے بعد انہیں نوزائندہ مملکت کی صحافت میں فطری طور پر بااثر مقام مل گیا۔ ان کے اداریئے اس حد تک نوکدار قلم کے ساتھ اور موثر انداز میں لکھے جاتے تھے کہ وزارتیں بدل جاتی تھیں۔ ان کے دور کا نوائے وقت اگرچہ مالی لحاظ سے کمزور حالت میں رہتا تھا لیکن اسے اعلیٰ حکومتی
حلقوں سے لے کر عام دانشوروں اور باشعور قارئین میں پذیرائی حاصل تھی۔ قیام پاکستان کے مخالفین کے خوب لتے لئے جاتے تھے۔ نظریاتی لحاظ سے وہ دائیں بازو سے تعلق رکھے تھے۔ کمیونسٹ نظریات کے سخت مخالف تھے۔ اس میدان میں ان کے اخبار کا مقابلہ میاں افتخار الدین مرحوم کی ملکیت میں شائع ہونے والے پاکستان ٹائمز روزنامہ امروز اور ہفت روزہ لیل و نہار جیسے جاندار جرائد سے تھا جہاں باائیں بازو اور اشتراکی نظریات کا کھل کر پرچار کیا جاتا تھا۔ اس ماحول میں حمید نظامی اپنے مقابلتاً کم وسائل لیکن کہیں زایدہ اثر رکھنے والے اخبار نوائے وقت اور اس کے اداریوں کے ذریعے کمیونسٹوں کے خیالات اور ان کی زیرزمین سرگرمیوں کی خبر لینے میں پیش پیش رہتے تھے۔ جمہوری قدروں کے ساتھ ہمیشہ انہوں نے اپنا دامن وابستہ کئے رکھا۔ کہا جاتا ہے 1958ء میں ایوب خاں کے مارشل لاء کا صدمہ ان کیلئے جان لیوا ثابت ہوا۔ فروری 1962ء میں جوانی کے عالم میں عارضہ قلب کی ہی بناء پر اس جہان فانی کو خیرباد کہہ گئے مگر پاکستان کے اقلیم صحافت پر اپنے نمٹ اثرات چھوڑ گئے۔ مرحوم کی موت کے وقت دونوں بیٹے عارف اور شعیب نابالغ تھے۔ چھوٹے اور عزیز بھائی مجید نظامی جب وہ بستر مرگ پر تھے لندن سے لاہور پہنچ کر بڑے بھائی کی مسند پر جانشین ہو گئے۔ مجید نظامی نے ایک جانب مرحوم بھائی کے جمہوری نظریات کے ساتھ گہری وابستگی کو اخبار کی پالیسی کے بنیادی پتھر کے طور پر اپنائے رکھا دوسری جانب انہوں نے اس کی مالی حالت کودرست کرنے کیلئے خالصتاً کاروباری سطح پر اقدامات کئے۔ یوں نوائے وقت پر بطور اخبار اپنے قدموں پر کھڑا اور کاروباری لحاظ سے کامیاب ہونے کا دور بھی شروع ہو گیا۔
مجید نظامی کی زیر ادارت نوائے وقت کو اسی وقت خاص شہرت ملی اور آمریت کے خلاف ڈٹ جانے کا موقع ملا جب 1964-65ء کے صدارتی انتخابات کے وقت قائداعظم کی ہمشیروہ محترمہ فاطمہ جناح ایوب آمریت کو للکارتی ہوئی متحدہ اپوزیشن کی متفقہ امیدوار کے طور پر میدان میں اتریں۔ اس وقت کے بڑے بڑے اخبارات نیشنل پریس ٹرسٹ کی سرکاری ملکیت یا حکومتی اثرورسوخ کے تابع ہو چکے تھے۔ مجید نظامی نے نوائے وقت کی روایات کی
ازسر نو آبیاری کی اور محترمہ فاطمہ جناح اور متحدہ اپوزیشن کا ترجمان بن کر آن کھڑا ہوا۔ اسے خوب پذیرائی ملی اور اس لحاظ سے نوائے وقت کا ملک بھر میں چرچا ہوا۔ تاہم 1970-71ء میں مجید نظامی کے اپنی بھاوج اور مرحوم بھائی کے بیٹوں عارف اور شعیب سے اختلافات پیدا ہو گئے۔ انہوں نے اس ادارے کو چھوڑ کر ندائے ملت کے نام سے اخبار نکال لیا۔یحییٰ کا مارشل لاء ملک پر سایہ فگن تھا۔ نوائے وقت میں غلطی سے کوئی خبر چھپ گئی۔ مارشل لاء والوں نے آن دبوچا۔ عارف اور شعیب کو پکڑ کر لے گئے۔ مجید نظامی سے نوعمر بھتیجوں کی یہ حالت زار دیکھ کر رہا نہ گیا۔ انہوں نے اپنے اثرورسوخ سے انہیں چھڑوا لیا۔ تب خاندان کے اندر فیصلہ ہوا مجید نظامی دوبارہ نوائے وقت کا انتظام و انصرام سنبھال لیں گے مگرانہوں نے شرط لگا دی جب تک اخبار ان کی ملکیت میں نہیں دے دیا جاتا وہ اس کے دفتر کا رخ نہ کریں گے۔ چنانچہ کوئی پونے تین لاکھ روپے کے قریب اخبار کے ڈکلیئریشن کا سودا ہوا اور نوائے وقت بطور اخبار کاملاً مجید نظامی کی ملکیت میں چلا گیا۔ جسے انہوں نے بڑے رعب اور مدبرانہ طنطنے کے چلایا اور خوب چلایا۔ پاکستان کی داخلی سیاست کے علاوہ خارجہ پالیسی پر بھی براہ راست اثرانداز ہوتے رہے۔ بھارت دشمنی یوں کہئے کہ ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرا کے پاکستان کے ساتھ الحاق کرانا ان کی صحافتی زندگی کا بہت بڑا مشن تھا۔ ان مسائل پر دوسری رائے سننا یا شائع کرنا انہیں گوارا نہیں ہوتا تھا۔ جون 1991ء میں جب میں نوائے وقت کا تجزیاتی کالم نویس تھا تو بھارت میں عام انتخابات ہو رہے تھے۔ میں نے نظامی صاحب سے کہا اگر آپ مناسب سمجھیں تو مجھے ان انتخابات کا جائزہ لینے کیلئے نئی دہلی بھیج دیں۔ وہ فوراً آمادہ ہو گئے۔ انڈین ایمبیسی کو میرے لئے ویزے کا خط لکھ دیا۔ ہوائی جہاز کا ٹکٹ اور وہاں کی رہائش کیلئے خرچے کی منظوری دیدی۔ یہ خبر عام ہوئی تو لاہور کے صحافتی اور سیاسی حلقوں میں سخت حیرت اور استعجاب کا اظہار کیا گیا۔ مجید نظامی اپنے خرچے پر کسی کو بھارت کیسے بھیج سکتا ہے۔ میں وہاں گیانومنتخب وزیراعظم نرسیما راؤ سے انٹرویو کرنے کا موقع ملا۔ انہوں نے کہا چونکہ آپ نوائے وقت جیسے اخبار کی نمائندگی کر رہے ہیں جسے ہمارے حکومتی حلقوں میں بطور خاص پڑھا جاتا ہے اس لئے میں آپ کے صرف تحریری سوالات کا تحریری جواب دوں گا، سو ایسا ہی ہوا۔ پاکستان کی سیاست پر بھی مجید نظامی کا اثر و رسوخ مقابلے میں کسی بھی بڑے سے بڑے صحافی سے کم نہ تھا۔
عارف نظامی کو انہوں نے اپنے بھتیجے کے طور پر ساتھ رکھا۔ انہوں نے ایم اے صحافت تک کی تعلیم حاصل کی۔ پھر چچا کی زیرنگرانی باپ کی میراث کے طورپر چھوڑے ہوئے اخبار کے رپورٹر کی تربیت حاصل کی بعدازاں ڈپٹی ایگزیکٹو ایڈیٹر اور ایگزیکٹو ایڈیٹر کے منصب پر جا پہنچے۔ انہیں اخبار میں مجید نظامی کے بعد نمبر دو کی حیثیت حاصل تھا۔ نوے کی دہائی میں ادارے نے انگریزی روزنامے دی نیشن کا اجرا کیا۔ عارف نظامی اس کے باقاعدہ ایڈیٹر تھے۔ تاہم سب کچھ ہونے کے باوجود ان کے اختیارات محدود تھے۔ نظریاتی لحاظ سے اگرچہ چچا کے خیالات کی پیروی کرتے تھے مگر ذاتی طور پر قدامت پسند مجید نظامی کے مقابلے میں قدرے لبرل واقعے ہوئے تھے۔ صحافتی حلقوں میں اس کا چرچا رہتا تھا کہ مجید صاحب کے بعد اگر اخبار عارف کے ہاتھوں میں چلا گیا تو کیا اس کی سخت نظریاتی جہت باقی رہے گی یا نہیں۔ یہی سوال ایک دفعہ میں نے مجید صاحب سے براہ راست کیا۔ انہوں نے جواب دیا ایڈیٹر تو میرے بعد عارف ہی ہو گا لیکن پالیسی کنٹرول کے لئے میں نے ایک بورڈ بنا دیا ہے۔ وہ میرے بعد بھی میرے نظریات کی حفاظتی کرے گا۔ یہ بات تو انہوں نے کہہ دی مگر دل میں غالباً کوئی اور منصوبہ تھا۔ نظامی صاحب نے اپنی اہلیہ مرحومہ کی رشتے میں بھتیجی یا بھانجی منیزہ کی اپنے گھر میں پرورش کی۔ اسے اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ صحافت کی تربیت دینا شروع کر دی۔ دفتر میں وہ نظامی صاحب کی براہ راست نگرانی میں کام کرتیں اور صحافت کے طور طریقوں سے واقفیت حاصل کرتیں۔ پھر جلد ان کا نام ڈپٹی یا ایگزیکٹو ایڈیٹر کے طور پر چھپنا شروع ہو گیا۔ عارف نظامی آہستہ آہستہ اخبار کے معاملات سے بیدخل ہوتے گئے۔ اسی دوران میں نظامی صاحب کی اہلیہ کا انتقال ہوا تو خبر میں ان کا تذکرہ نوائے وقت کی ایگزیکٹو ایڈیٹر رمیزہ نظامی کی والدہ کے طور پر کیا گیا پھر جلد یہ خبر سارے ملک میں پھیل گئی کہ عارف نظامی کو نوائے وقت اور دی نیشن سے فارغ خطی دے دی گئی ہے۔ رمیزہ عملاً تمام اختیارات کی مالک بن گئیں۔ کسی نے کہا پرانے انتقامی جذبے نے اپنا رنگ دکھایا ہے۔ کوئی بولا نظریاتی اختلاف کی وجہ سے عارف کو نکالا گیاہے۔ مجید نظامی چونکہ سخت مزاج کے مالک اور اپنی ہٹ کے پکے تھے کسی کو ان کے آگے چوں چراں کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔
عارف نظامی مرحوم نے وہاں سے فارغ ہونے کے بعد اگرچہ انگریزی روزنامہ پاکستان ٹو ڈے نکالا۔ ایک دو اخبارات میں کالم نویسی بھی کی۔ ٹی وی پروگرام کئے۔ نگران انتظامیہ میں وزیر اطلاعات بھی مقرر ہوئے مگر ان کو باپ کی میرات والے ادارے سے بیدخل ہو جانے کا سخت صدمہ تھا۔ دل کے مریض تھے مگر یہ صدمہ ان پر سخت بھاری تھا۔ قریبی دوستوں سے اس کا اظہار بھی کرتے۔ 2011ء میں ہم نے نئی بات کا اجراء کیا جہاں مجید نظامی مرحوم نے نوائے وقت میں ہمارے لئے خیرمقدمی اشتہار چھاپا۔ وہیں عارف نظامی نے میرے بار بار اصرار پر ہمارے اخبار میں پہلی دفعہ اردو میں باقاعدہ کالم لکھنا شروع کیا جسے اچھی خاصی پذیرائی ملی۔ ان کے اخباری سکوپس کا پہلے سے شہرہ تھا۔ ان کے ہر کالم میں بھی کوئی نہ کوئی خبر یا اس جانب اشارہ ہوتا تھا۔ دو تین برس کے بعد انہوں نے کالموں کے لئے دوسرا نیا اخبار چن لیا لیکن میرے ساتھ ذاتی تعلقات تادم آخر خوشگوار رہے۔ ادھر عارف نظامی کو تو نوائے وقت سے نکال دیا گیا مگر مجید نظامی بھی عمر رسیدہ ہو چکے تھے۔ رمیزہ بی بی ان کی بنائی ہوئی اخباری ایمپائر کی مالک بن گئی لیکن ان میں بطور ایڈیٹر مولوی مدن والی وہ بات نہیں جو حمید نظامی اور مجید نظامی کا خاصہ تھا اور جس کی وجہ سے نوائے وقت اردو کیا برصغیر کی صحافت میں ممتاز ہوا۔ ادارے کا ٹی وی چینل جلد بند کرنا پڑا۔ دی نیشن اور نوائے وقت بلاشبہ باقاعدگی کے ساتھ شائع ہوتے ہیں۔ بڑا نام ہے ان کا کیونکہ پیچھے پون صدی کی تاریخ ہے لیکن وہ ادارتی دم خم کمزور ہوتا نظر آرہا ہے جس نے نوائے وقت کو امتیاز بخشا تھا۔ اب جو عارف نظامی بھی اس دنیا میں نہیں رہے تو پاکستانی صحافت کی سلطنت مغلیہ اپنے عروج کی پون صدی دیکھ کر تاریخ کے اوراق کا حصہ بنتی نظر آرہی ہے۔