عارف نظامی بھی گئے۔۔۔۔۔۔۔

11:30 AM, 25 Jul, 2021

ہمارا ایمان ہے کہ اس دنیا میں کوئی بھی امر نہیں جو آیا ہے اس نے ایک وقت مقرر پر جانا ہے۔ لیکن کچھ ہستیاں ایسی ہوتی ہیں جن کا جانا سبھی کو دکھی کر دیتا ہے عارف نظامی بھی ان میں سے ایک تھے۔ ان سے آخری ملاقات وحید انجم کے ساتھ ایوان اقبال میں سی پی این ای کے اجلاس کے وقت ہوئی۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری صاحب بھی تقریب میں موجود تھے۔ 
آج عارف صاحب کی پیشہ ورانہ زندگی سے متعلق قلم اٹھاؤں گا بظاہرعارف صاحب تھے تواخبار کے مالک اور ایڈیٹر لیکن ان کے اندر ایک صحافی اور رپورٹر بدرجہ اتم موجود تھا پھر حمید نظامی مرحوم کی وراثت کا خون بھی ان کی رگوں میں دوڑ رہا تھا۔ وہ اپنی ذات میں ایک درسگاہ تھے جس کے دروازے کھلے رہتے تھے اور اس درسگاہ میں جو بھی گیا سیر  ہو کر آیا۔ وہ رپورٹرز کی نہ صرف قدرکرتے تھے بلکہ ان کی حوصلہ افزائی بھی۔ عارف نظامی صاحب نے دی نیشن میں بطور صحافی بڑے بڑے سکوپ بھی دیئے اور ان کی تعداد اتنی ہے کہ اس کالم میں نہ سما سکے۔ ان کی ہر بریکنگ نیوزحرف بہ حرف درست ثابت ہوئی۔ ان کا بطور صحافی کردار اس شعبے میں نئے آنے والوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ دی نیشن میں انکی انگریزی تحریروں کی طرح ان  کے  اردو کالم بھی قابل رشک تھے  پرنٹ میڈیا کے علاوہ الیکٹرانک میڈیا میں بھی انہوں نے اپنے جھنڈے گاڑے اور ثابت کیا  کہ سچے صحافی کے لیے میڈیم کا کوئی فرق نہیں ہوتا۔  
میں نے تمام عمر انگریزی زبان میں صحافت 
کی اور ابتدا موقر ہفت روزہ ViewPoint سے کی میری یہی صنف مجھے عارف صاحب تک لے آئی۔ عارف صاحب سے پہلی ملاقات دی نیشن کے ایڈیٹر کے طور پر ہوئی۔ میں ان دنوں دی نیوز میں تھا اور تحقیقی رپورٹنگ میری اساس تھی دی نیوز کے بانی ایڈیٹر استاد محترم حسین نقی صاحب دی نیوز چھوڑ چکے تھے۔ ان کے جانے سے طبیعت میں عجیب سے بیزاری تھی ان کے بعد کئی ایڈہاک ایڈیٹر آزمائے گئے لیکن پروفیشنل ایڈیٹر نہ ہونے سے ایک تشنگی سی رہتی تھی۔ ان دنوں دی نیوز اور دی نیشن پیشہ ورانہ حریف اخبارات تھے۔ پیارے دوست سرمد بشیر نے مجھے دی نیشن میں آنے کے لیے کہا اور میں نے حامی بھر لی۔ عارف صاحب سے ملاقات ہوئی اور جب ان سے پالیسی پوچھی تو کہنے لگے ”خبر“ کی کوئی پالیسی نہیں ہوتی اور خبر ہی ہماری پالیسی ہے۔ ان کی رہنمائی میں کام شروع کیا اور مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ کام کرنے کی جو آزادی مجھے دی نیشن میں ملی اس سے میرے جوہر کھلے۔ دی نیشن میں میرے پہلے دن میرے پاس اس وقت کے وزیر اعلیٰ کی دوسری بیوی کے ہاں لندن میں ان کے ہاں بیٹی کی پیدائش کی خبر آئی ہوئی تو میں نے چیف رپورٹرسرمد بشیر سے ذکر کیا۔ انہوں نے اپنے کالم میں میرے حوالے سے اس خبر کا ذکر کر دیا۔ اگلے دن وزیراعلیٰ صاحب کا اس خبر کے حوالے سے مجید نظامی مرحوم کو فون آگیا۔مجھے عارف نظامی صاحب نے بلایا اور کہا ثبوت ہیں۔ ان دنوں زرائع ابلاغ اتنے موثر نہ تھے۔بہر کیف میں نے فیکس پر نو مولود کی ہسپتال سے تصویر اورساری تفصیل منگوالی ساتھ ہی اضافی معلومات بھی دیں یعنی بچی کا نام جو جویریہ شریف تھا فراہم کر دیا۔ مجید نظامی صاحب کے پاس بمع ثبوت پیش ہوا تو انہوں نے اسی وقت وزیراعلیٰ کو فون ملوایا اور کہا کہ رپورٹر میرے پاس ثبوت کے ساتھ بیٹھا ہے تردید چھاپ دوں۔ اس طرف سے غالباً انکار کیا ہو گا۔ مجھے نظامی صاحب نے جانے کو کہا اور کمرے سے نکلتے نکلتے ان کے جو الفاظ میرے کانوں میں پڑے ”جویریہ بیٹی کی مبارک ہو“۔   
نوازشریف فیملی کے مجید نظامی  سے تعلقات ڈھکے چھپے نہیں لیکن عارف نظامی صاحب نے خبر کے معاملے میں ہمیشہ میری حوصلہ افزائی کی۔   
ایک بار لاہور کے ضمنی انتخابات کے دوران دیال سنگھ کالج کے دورے کے موقع پر نواز شریف کی گاڑی پر فائرنگ کی خبر آئی۔ اتفاق سے میں اور ساتھی رپورٹر اویس ابراہیم اور محمد اشفاق بھی میرے ساتھ موقع پر موجود تھے۔ ہم نے نواز شریف کی  گاڑی دیکھی جو حقیقی معنوں میں چھلنی بلکہ چھاننی بنی ہوئی تھی۔ موقع پر بھاری پولیس موجود تھی لیکن اس نے بھی موقع سے گولیوں کے خول بھی اکٹھا کرنا گوارہ نہ کیے ہم نے گولیوں کے تمام خول اکٹھے کیے۔ ان دنوں مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت  تھی اور دونوں جماعتوں میں دشمنی کی حد تک سیاسی مخالفت تھی۔ دفتر پہنچے تو ہم نے ایمانداری سے خبر فائل کی کہ نواز شریف فائرنگ 
سے قبل علاقے سے نقل چکے تھے جبکہ نوائے وقت کی خبر تھی کہ نواز شریف کی گاڑی میں موجودگی میں اندھا دھند فائرنگ اور وہ بال بال بچ گئے۔ دی نیشن اور نوائے وقت کی خبریں ایکسچینج ہوتی تھیں۔ ایک ہی واقع کی متضاد خبروں پر کھلبلی مچ گئی اور ایک بار پھر مجھے عارف نظامی صاحب نے بلایا میں نے کہا میں اپنی خبر پر قائم ہوں بعد میں مجید نظامی صاحب کے پاس بھی پیشی ہوئی اور میں نے اپنا موقف دہرایا اور میرے موقف کو عزت دی گئی۔ نتیجتاً اگلے دن نوائے وقت سمیت ہر اخبار میں خبر چھپی کہ نواز شریف پر فائرنگ لیکن دی نیشن کی خبر ان سب سے مختلف تھی۔یہ سب عارف نظامی کا اپنے رپورٹر پر اعتماد تھا کہ اسے فوقیت دی اس اعتماد نے آگے چل کر میری بہت مدد کی۔ اس حملے کی تحقیق کے لیے  لاہور ہائی کورٹ کا جیوڈشل کمیشن بھی بنا اور عارف صاحب کی ہدایت کے مطابق ہم نے اپنی خبر کو ہی اپنا بیان قرار دینے کو کہا۔ گو کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے بھی جیوڈشل کمیشن میں ہم سے اپنے حق میں بیان دینے کو کہا لیکن ہم نے اپنی خبر پر قائم رہے۔ 
عارف نظامی صاحب نے مجھے سیاسی رپورٹنگ سے ہٹ کر تجزیہ نگاری اور پنجاب پریس گیلری لکھنے کو کہا اور میں نے یہاں بھی انکے پڑھاے ہوے سبق یعنی خبر پر توجہ دی۔ مخدوم الطاف احمد مرحوم پنجاب کے وزیر خزانہ تھے ان کے عارف نظامی صاحب سے ذاتی تعلقات تھے۔ ایک بار پنجاب کا بجٹ اسمبلی میں پیش ہونے سے پہلے ہی میرے ہاتھ لگ گیا اور دی نیشن میں چھپ گیا۔ اگلے دن اسمبلی میں بہت ہنگامہ ہوا کہ لیک بجٹ نامنظور کے نعرے لگے۔ مخدوم صاحب مجھے کونے میں لے گئے حامد میر بھی موجود تھے اور کہا کہ یہ بجٹ کس نے آپ کو دیا ہے میں خاموش رہا۔ اگلے دن مخدوم صاحب دی نیشن کے دفتر عارف نظامی صاحب سے ملنے آئے مجھے بلایا گیا اور وہی سوال کہ اس بجٹ لیک کا سورس کیا ہے۔ عارف صاحب نے کہاسورس اور رپورٹر کا مقدس رشتہ ہوتا ہے لیکن اگر رپورٹر بتاتا ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ میں نے انکار کر دیا تو انہوں نے کہا کہ اتنا بتا دیں سورس بیورو کریسی کا ہے یا سیاسی۔ میں نے جواب دیا دونوں اور چلا آیا بعد میں عارف صاحب نے مجھے جواب پر شاباش دی۔ 
موجودہ وزیر خزانہ شوکت ترین کے عارف نظامی صاحب سے تعلقات بھی روز روشن کی طرح عیاں تھے ایک بار ان کے بارے میں خبر دی تو وہ بھی دفتر پہنچ گئے میں نے تمام ثبوت سامنے رکھ دیئے۔ ترین صاحب کہنے لگے میری وضاحت ہی دے دیں میں نے وضاحت پڑھی تو کہا کہ اس کے ساتھ میرا وقف بھی جاے گا اس پر ترین صاحب نے اپنی وضاحت واپس لے لی۔ عارف صاحب نے یہاں بھی دیرینہ دوست کی جگہ میرا ساتھ دیا۔ ایک بار گجرات کے نواحی قصبے اور اعتزاز احسن کی جنم بھومی کنجاہ میں ایک ہی خاندان کی چار عورتوں سمیت 16 افراد قتل ہو گئے اور تمام اخبارات میں سنگل کالم خبر چھپی۔ عارف صاحب نے کہاکہ موقع پر جا کر اس کی تحقیق کر کے خبر دیں۔ میں اویس ابراہیم کے ساتھ وہاں پہنچا تو پتہ چلا کہ اس قتل کے پیچھے دشمنی کے علاوہ سیاسی رقابت بھی شامل ہے۔ گجرات کے چوہدری برادرز ایک گروپ کو اور اس وقت کے گجرات سے تعلق رکھنے والے پیپلز پارٹی کے وزیر دفاع دوسرے گروپ کے حمایتی ہیں۔ مقتولین میں ایک فوجی بھی تھا اور ہماری تحقیقات سے ثابت ہوا کہ قتل سے پہلے خواتین کے ساتھ ریپ بھی ہوا۔ اس خبر کو رکوانے کی بہت کوشش کی گئی لیکن ایک پروفیشنل ایڈیٹر کی وجہ سے یہ خبر چھپی۔ عارف نظامی صاحب کے بے نظیرشہید سے بھی دیرینہ تعلقات تھے۔ اگلے دن خبر چھپنے کے بعد اس وقت کی وزیراعظم بے نظیر شہید نے عارف نظامی صاحب کو فون کیا اور خبر پر تحفظات کا اظہار کیا۔ میں نے تمام ثبوت سامنے رکھ دیئے۔ اس وقت کے آرمی چیف بھی متحرک ہو گئے اور بالآخر قاتل گجرات کی ایک جوتوں کی مشہور فیکٹری سے گرفتار ہوئے۔ بے نظیر شہید نے اگلے دن وزیر دفاع کے حق میں اور ہماری خبر کی تردید میں پریس کانفرنس کی۔ ہم بہت جز بز ہوئے کہ اسی جگہ تردید چھپی۔ عارف صاحب نے مجھے بلایا حوصلہ دیا کہ بے نظیر وزیراعظم ہے اس کاموقف تو چھپنا ہی تھا اس پر فالو اپ کرنے کو کہا تو ہم نے وزیر موصوف کی فیکٹری کہ تہہ خانے سے قتل کے ملزمان کی گرفتاری کی خبر دی۔    
اس طرح کے اتنے واقعات ہیں کہ اخبارات کے صفحے بھر جائیں۔ مجھے صحافت میں تو حسین نقی صاحب لائے تھے لیکن مجھے جلا بخشنے میں عارف صاحب کا نام سر فہرست ہے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور درجات بلند فرماے۔آمین
قارئین اپنی رائے کے اظہار کے لیے اس نمبر 03004741474 پر وٹس ایپ، سگنل، بی آئی پی یا ٹیلیگرام کر سکتے ہیں 

مزیدخبریں