موجودہ پارلیمنٹری نظام حکومت قیام پاکستان کے وقت برطانوی حکمرانوں سے ورثے میں ملا تھا۔یہ نظام برطانیہ، آسٹریلیا کینیڈا جیسے چند ممالک میں بہتر ہے،اوروہ بھی اس لیے کہ ان خوشحال ممالک کی شرح خواندگی 100 فیصد کے قریب ہے، قوم اچھے برے کی تمیز رکھتے ہیں،اخلاقیات کے معیار بلندہیں اورصحیح معنوں میں وہاں انسانیت کی قدر اور حق رائے دہی کاصحیح استعمال ہے، سیاسی جماعتیں وارڈ لیول سے لے کر مرکزی سطح تک منظم ہیں اور ان جماعتوں کے ممبران پارٹی کے منشور اور پارٹی کے عہدہ داروں کے چناو میں کلیدی رول ادا کرتے ہیں اوراب سے اہم اس ملک میں خواندگی کی شرح سو فیصد ہے۔ لوگ اپنے مسائل اور ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے ووٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ اسکے بر عکس پاکستان میں کوئی بھی سیاسی جماعت منظم نہیں، شرح خواندگی حقیقی معنوں میں 25 فیصد سے بھی کم ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان میں حق رائے دہی کی بنیاد ذات برادری، قومیت، وڈیرہ شاہی، یا مذہبی فرقہ بندی کی بنیادوں پر ہوتی ہے، لوگوں کے مسائل سے سیاسی جماعتوں کے منشور کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ پاکستان میں اس نظام حکومت کو ہم نے 1956 کے آئین اور چند تبدیلیوں کے ساتھ 1973 کے آئین کی صورت میں اسکے تجربے کئے لیکن نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ قیام پاکستان سے عوام کو سیاسی انصاف سے انکار کیا گیا ہے،وہ ان سیاسی جماعتوں کے زیر اقتدار تھے جنہیں مقبول ووٹوں کا 51 فیصد سے بھی کم ووٹ ملا تھا، برسراقتدار پارٹیوں نے 2008، 2013 اور 2018 میں بالترتیب 25.6 فیصد، 32.7 فیصد اور 31.8 فیصد مقبول ووٹ حاصل کیے۔مزید پارلیمانی نظام میں ہم قانون سازوں کا انتخاب کرتے ہیں لیکن وہ ایگزیکٹو بھی بن جاتے ہیں۔
درحقیقت پارلیمانی نظا مِ جمہوریت بلیک میلنگ کا دوسرا نام بن چکا ہے، جو عوام کے بجائے صرف اشرافیہ کے تحفظ کیلئے کام کرتا ہے،پاکستان اس گلے سڑے نظامِ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ موجودہ بدترین پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں تبدیل کیا جانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ صدر براہ راست قوم کے ووٹوں سے منتخب ہو جسے اپنی کابینہ قابلیت کی بنیاد پر ٹیکنوکریٹ میں سے منتخب کرنے کا حق حاصل ہو۔ کابینہ صدر اور صدر پارلیمنٹ کو جواب دہ ہو۔ مضبوط بلدیاتی نظام کے تحت ضلعی حکومتیں، میئرز، جنرل کونسلرز بااختیا ر ہوں گے۔ غیرضروری اخراجات و پروٹوکول کا خاتمہ ہو گا اور علاقائی ترقی سے ملک ترقی کرے گا۔متناسب نمائندگی کی بنیاد پر انتخابات ہوں تاکہ الیکٹ ایبلز کی بلیک میلنگ کا خاتمہ ہو، پڑھے لکھے اور قابل لوگ سامنے آ سکیں۔ جو پارٹی 10 فیصد سے کم ووٹ لے ایسی علاقائی جماعتوں پر پابندی لگائی جائے، تاکہ چند قومی جماعتوں سے انتخابی عمل میں استحکام آئے گا۔جبکہ صدارتی نظام میں لوگ خوبیوں کی بنیاد پر قانون ساز اور ایگزیکٹوز علیحدہ علیحدہ منتخب کرتے ہیں۔پارلیمانی نظام نے پاکستانی معاشرے کوزبان اور مذہبی فرقوں میں تقسیم کرکے پولرائزیشن کی حوصلہ افزائی کی، جبکہ صدارتی نظام میں کسی بھی صوبے سے تعلق رکھنے والے کسی فرد کو اپنی خوبیوں کی بنیاد پر عوامی ووٹ حاصل کرنے کا موقع ملتا ہیجس سے پولرائزیشن کا خاتمہ ہوگا۔ پارلیمنٹ میں تقریبا 25 فیصدخصوصی نشستیں درحقیقت قانونی کرپشن ہے جس سے قوم کو سیاسی انصاف سے انکار کیا گیا ہے جبکہ صدارتی نظام میں پارلیمنٹ میں کوئی مخصوص نشستیں نہیں ہوں گی۔1973ء کے آئین کے تحت اب تک 10انتخابات کا انعقاد ہوچکا ہے مگران خرابیوں کا ازالہ بدنیتی سے نہ کیاگیا۔
دنیا میں82 فیصد ممالک میں صدارتی نظام کامیابی سے چل رہا ہے۔بیشتر عالمی رہنما بشمول امریکی صدر جوبائیڈن، چینی صدر شی چنگ پنگ، روسی صدرولادی میر پوتن اور ایرانی صدرابراہیم رئیسی وغیرہ اپنے ممالک میں صدر کے طاقتور عہدے کی نمائندگی کرتے ہیں، درحقیقت سپرپاورامریکہ کو صدارتی نظام کی ایک کامیاب مثال قرار دیا جاسکتا ہے جہاں ایک منتخب صدر عوامی حمایت کی بدولت مکمل اختیارات کاحامل ہوتا ہے۔امریکہ، ایران، لاطینی امریکی ممالک بشمول میکسیکو، کوسٹا ریکا، چلی، برازیل ، پاناما اورجنوبی سوڈان، گھانا، نائجیریاسمیت متعدد افریقی ممالک میں مکمل اختیارات صدر کے پاس ہیں۔ کم از کم ایشیاء کی حد تو یہ بات بڑے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ یہاں اکثریت ان ہی ممالک نے اقتصادی ترقی کی ہے جنکانظام حکومت صدارتی تھااور طرز حکمرانی قانون کے مطابق تھا۔جس ملک میں قانون کی حکمرانی نہ ہو وہاں انصاف مہیا نہیں ہو سکتا اور جہاں انصاف نہ ہو وہاں کوئی مہذب معاشرہ تشکیل نہیں پا سکتا اس لئے قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کیلئے …