ایک ہستی کے ساتھ ان کی وفات کے وقت کے حوالے سے کچھ روایات مشہور ہیں۔ جیسے ایک روایت ہے کہ موت کا فرشتہ آیا تو انھوں نے سوال کیا کہ تم مجھے آنے کی اطلاع کرتے۔ فرشتے نے عرض کی کہ آپ کا وجود کمزور ہوا تھا؟ بینائی کم ہوئی تھی؟ سر کے بال چاندی کھا گئے تھے۔ وغیرہ۔ انہوں نے فرمایا ہاں۔ تو فرشتے نے عرض کی حضرت یہ میری آمد کی علامتیں اور اطلاعات ہی تو تھیں۔ دنیا کے معاملات میں بھی سوائے آفات سماوی کے کوئی واقعہ ایک دم نہیں ہوتا۔ کسی بھی معاشرت میں ترقی کا ارتقا ہو یا تنزلی یہ دیرے دیرے اپنے منطقی نتائج پر پہنچتی ہے۔ ارض وطن پر حکومتوں کے بننے ٹوٹنے کے واقعات مہذب دنیا کی طرح وقوع پذیر نہیں ہوتے یہاں کے معیارات اور تاریخ ذراہٹ کے ہے۔ ایوب خان کی آنیاں اور پھر جانیاں بذات خود مکمل تاریخ ہے جس سے کئی کہانیوں اور سانحات نے جنم لیا۔ ایوب اور یحییٰ ادوار کے نتائج کی صورت میں بنگلہ دیش کے بعد مغربی پاکستان ہی موجودہ پاکستان رہ گیا۔ اللہ کریم قائم رکھے وطن کی قدر اولین ذمہ داری ہونی چاہیے۔ مگر ہماری ترجیحات مختلف ہیں ان ترجیحات کی بدولت ہم نے آزادی کے بعد آدھا ملک گنوایا اور جو رہ گیا اس کا اقتدار اعلیٰ بین الاقوامی قوتوں اور اداروں میں تقسیم کر دیا۔ نہیں معلوم کوئی کیا سوچے مگر آج پاکستان گریٹ بھٹو صاحب، محترمہ شہید بے نظیر بھٹو، میاں نواز شریف اور زرداری صاحب کے اقدامات پر کھڑا ہے۔ گریٹ بھٹو صاحب کے ساتھ المیہ ہے کہ آئین، اسلامی سربراہی کانفرنس، ایٹمی توانائی، ختم نبوت کا مسئلہ حل کرنا جیسے فلک بوس کارناموں کے پیچھے بہت بڑے بڑے کارنامے اور ان گنت خدمات چھپ گئیں۔ عام آدمی کو پاسپورٹ کا حق جس کی بدولت وطن عزیز کے لاکھوں لوگ دنیا بھر کے ممالک میں گئے جن کی اولادیں آج وطن عزیز کی بیرون ملک قوت ہیں۔ عام آدمی کو بینک سے قرضہ لینے کی اجازت، قومی شناختی کارڈ کا اجرا، تعلیم مفت اور عام کرنا، تعلیمی ادارے ، میڈیکل کالجز، ہسپتالوں کا قیام غرض کہ دنیا کی احساس کمتری میں مبتلا قوم اور ملک کو دنیا کے صف اول کے ممالک میں کھڑا کر دیا۔ جب آئے تھے تو نوے ہزار جنگی قیدی پانچ ہزار مربع میل علاقہ بھارت کے قبضہ میں اور قوم کا مورال زمین بوس تھا مگر جب ان کو اقتدار سے الگ کیا گیا ایک خوشحال پاکستان تھا۔ روٹی کپڑا اور مکان کیا گریٹ بھٹو کی پالیسیوں اور خارجہ پالیسی نے وطن عزیز کی کایا پلٹ دی۔ بیرون ملک پاکستانیوں کے روزگار نے اندرون ملک اثرات چھوڑے۔ یہ محاورہ تھا جس نے بھٹو کے دور میں نہیں کمایا وہ کبھی نہیں کما سکتا۔ یہ جو ٹی وی پر آکر کرائے پہ بین ڈالنے والی عورتوں کی طرح کہتے ہیں روٹی کپڑا اور مکان نہیں ملا تھا ان کو پتہ ہونا چاہیے بوسکی، فلیٹ، فریج، ایئر کنڈیشنڈ کاریں، موٹر سائیکلیں، اچھے گھر، بلند معیار زندگی اسی دور کی دین تھی۔اس سے پہلے تو آٹھ دن کے بعد لوگ
کپڑے بدلتے تھے دوسرا کپڑوں کا جوڑا مہمان بن کر آنے جانے کے لیے ہوتا۔ انہوں نے روٹی کپڑے اور مکان کی بات سوشلزم کے نفاذ کے منشور کے ساتھ کی تھی۔ مگر جب ملک ملا تو ٹوٹ چکا تھا جنگ اور حوصلہ ہار چکے تھے۔ انہوں نے ایک با ہوش ڈرائیور کی طرح کھائی میں گرتی قوم کی گاڑی کو چابک دستی سے نئی اور ترقی کی سڑک پر ڈالا۔ خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات بڑھائے، چین، ایشیا اور پوری دنیا سے تعلقات برابری کی سطح پر قائم کیے۔ دنیا میں ان کی بات کا اعتبار کیا جاتا تھا ملک کے اندر اعتبار تھا اور انہوں نے سب کا مان رکھا۔ جان دے دی مگر مایوس نہیں کیا بات کہیں اور نکل گئی۔ جب ایسے عظیم رہنما کے خلاف سازش تیار ہوئی تو پھر کچھ وزیروں نے امریکی قونصل خانے سے استعفیٰ دے دیا سارا حال سب کے سامنے ہے مگر عوام نے ان سے وفا کی۔ بہرحال جب وقت بدلتا ہے تو حالات بدل جاتے ہیں جو لوگوں کے رویے بدلنے کی صورت نظر آتے ہیں۔ ایک تجزیہ کار طنزیہ طور پر کہتے ہیں، بھٹو صاحب ذہین فطین جری لیڈر تھے مگر نتیجہ کیا ہوا۔ تارا مسیح؟ میں پوچھتا ہوں ان کی زندگی کے خاتمے کے لیے عدلیہ کے ذریعے پھانسی تک پہنچانے والے کا انجام کیا ہوا؟ اب جو دبئی میں ہے اس کا انجام کیا ہے؟
محترمہ شہید نے ایٹمی میزائل ٹیکنالوجی دی جمہوریت کے لیے لازوال جدوجہد کی مگر جب وقت آیا تو لغاری دشمن بن گیا اور کبھی جتوئی، مگر عوام ساتھ تھے عوام کے ساتھ کی وجہ سے بی بی کو قتل کرنا پڑا کہ ان کی آواز دنیا میں سنی جاتی تھی۔ میاں نواز شریف نے انفراسٹرکچر دیا ایٹمی دھماکے کیے بی بی شہید کے بعد مقبول ترین قیادت تھے۔لہٰذا جلاوطنی مقدر بنا وقت پڑا تو چودھری برادران، شیخ رشید، ہمایوں اختر اور ایسے لوگ طاقتور حلقوں کے ہوگئے گویا اعضاچھوڑ گئے مگر عوام ساتھ ہے۔ زرداری صاحب نے آئینی طور پر خدمات انجام دیں جیل کاٹی چائنا ایران روس سے معاملات بہتر کیے جو وطن عزیز کا ٹرننگ پوائنٹ تھا جس کو نواز شریف نے آگے بڑھایا۔ اب آج کی بات کرتے ہیں عمران خان جس طرح لائے گئے جیسے جیتے جیسے جتوائے گئے اب تو شیخ رشید نے بھی گواہی دے دی کہ اس پر اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے۔ اس سے پہلے اعجاز شاہ کہہ چکے ہیں کہ اگر چار لوگ نہ ہوتے تو آج بھی نواز شریف کی حکومت ہوتی۔ اسد عمر کہتے ہیں نواز شریف کو باہر بھیجنا سوفیصد عمران خان کا فیصلہ تھا۔ احمد جواد نے جو سوال کر ڈالے وہ عمران خان کو پاکستان کی تاریخ کا فراڈ قرار دیتے ہیں۔ طاہر صادق اور خٹک کے لہجے بدل گئے۔ کبھی نورعالم کبھی اتحادی بول پڑتے ہیں۔ آج خان صاحب جن کے حصار میں ہیں وہ اپنے نہیں رہے۔ اب اعضا بول رہے ہیں، ساتھ چھوڑ رہے ہیں مگر صد افسوس کہ خان صاحب نے تاریخ کی نااہل ترین حکمرانی کے ساتھ مہنگائی، ڈھٹائی، بے حسی اور بدتمیزی کے تحفے روایات میں رواج کے طور پر داخل کر دیئے۔ غریب و متوسط کلاس ملازم طبقات بلکہ تئیس کروڑ میں سے بائیس کروڑ پچہتر لاکھ کی زندگی اجیرن کر دی۔ خان صاحب پہلے جو ہو گزرے انہوں نے تو پھر کچھ نہ کچھ کیا تھا افسوس آپ نے احتساب کو انتقام بنایا، اپوزیشن کو چور کہا مگر ’’رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے رانجھا ہوئی‘‘ والا معاملہ ہے۔ چور چور کہتے چور چور کہلانے پہ منتج ہوئے۔ یہ عمران خان کا ہی کارنامہ ہے کہ نواز شریف زرداری صاحب کا احتساب کر کے ان کی سیاست کو ڈرائی کلین کر دیا۔ میاں صاحبان اور زرداری صاحب کی سیاست زیرو میٹر کر دی۔ موروثی سیاست کا خاتمہ کچھ یوں کیا کہ مریم نواز اور بلاول بھٹو کے وزیراعظم بننے کے امکانات یقینی ہو گئے۔ میرے پاس کوئی ذرائع ہیں نہ چڑیا مگر تاریخ میری لیبارٹری ہے جس سے میں نتیجہ اخذ کرتا ہوں کہ خان صاحب پتہ نہیں کب تک حاکم رہیں مگر اعضا بول رہے ہیں اعضا کمزور ہو رہے ہیں وقت بدل گیا یہ حقیقی جمہوری حکمرانوں کے ساتھ بھی ہوا اور حاکمیت کے آخری ایام میں ڈکٹیٹروں کے ساتھ بھی کہ اعضا ساتھ چھوڑ گئے تھے۔
موجودہ حکومت نے لوگوں کی امنگوں اور ملک کے امکان سے بھی کھلواڑ کیا ہے۔ آپ اقتدار سے باہر کس لیے زیادہ خطرناک ہوں گے؟ اپوزیشن تو پہلے ہی زیر عتاب ہے، دراصل ایسے وقتوں میں ساتھی ہی نہیں اعصاب بھی ساتھ چھوڑ دیا کرتے ہیں۔
رہیں اوسان قائم یہ ممکن نہیں
وقت رخصت بال و پر اُڑ ہی جاتے ہیں