آج کا کالم کچھ کتابوں سے سجائوں گا‘ایسی کتابیں جو رواں ماہ موصو ل ہوئیں ۔آج صرف تین کتابوں کا ذکر کروں گا‘ایک سنجیدہ شعری مجموعہ اور دو مزاح نامے۔
’’مراد تو ہے‘‘ خوبصورت شعری مجموعہ ہے جس کے شاعر ہم سب کے دوست پروفیسر صغیر احمد صغیر ہیں۔آپ ان دنوں سائنس کالج کے شعبہ حیاتیات سے وابستہ ہیں اور’’فل ٹائم‘‘شاعری کر رہے ہیں‘مشاعرے پڑھ رہے ہیں اور ادبی حلقوں میں چھائے ہوئے ہیں۔پندرہ سال قبل ان کا پہلا شعری مجموعہ’’بھلا نہ دینا‘‘ شائع ہوا تھا جس کو اس قدر پذیرائی ملی کہ محض دو سال میں اس کے کئی ایڈیشن فروخت ہو گئے۔ایک طویل عرصے کے بعد اب دوسرا مجموعہ شائع ہواجو صرف غزلوں پر مشتمل ہے۔ کتاب پر کرامت بخاری‘حسن عسکری کاظمی‘ غلام حسین ساجد‘ ڈاکٹر جواز جعفری اور زاہد آفاق جیسے مستند شعراء کی آرا بھی موجود ہیں جو اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ پروفیسر صغیر احمد صغیر نے شعری و ادبی حلقو ں میں اپنا منفرد مقام بنا لیا ہے۔ان کی شاعری اس بات کی گواہ ہے کہ جدت و کلاسیکی رنگ میں لکھے گئے یہ اشعار صغیر احمد صغیر کو ہمیشہ کے لیے امر کر دیں گے۔نئے قوافی اور ردیفوں سے بھر پور شعری مجموعہ ادبی دنیا میں پسند کیا جا رہا ہے‘میں محترم دوست کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور ان کے ادبی مستقبل کے لئے دعا گو ہوں۔کسی بھی شاعر سے محبت کا ثبوت یہی ہوتا ہے کہ اس کی کتاب کو خرید کر پڑھا جائے‘میں آپ سب سے یہی گزارش کروں گا کہ یہ شعری مجموعہ نسبت پبلی کیشنزنے لاہور نے شائع کیا ہے جن کا دفتر موج دریا روڈ پر موجود ہے۔’’کتاب پڑھیں اور خرید کر پڑھیں‘‘۔ڈاکٹر صغیر احمد صغیر کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیں:
خواب میں تجھ سے ملاقات کیا کرتے ہیں
آنکھ کھلتی ہے تو خیرات کیا کرتے ہیں
’’کوئے ظرافت‘‘ڈاکٹر انعام الحق جاوید کا مزاح نامہ ہے۔انعام الحق جاوید کے نام اور کام سے کون واقف نہیں‘ایک عرصہ نیشنل بک فائونڈیشن میں ادبی کتاب میلوں سے دنیا بھر کے تخلیق کاروں کو آپس میں جوڑے رکھا۔ سیکڑوں کی تعداد میں یادگار کتابیں شائع کیں‘خود بھی شاعری کی اور مزاحیہ ادب میں اپنا منفرد مقام بنایا۔ ان دنوں اسلام آباد میں مقیم ہیں اور مزاحیہ شاعری کر رہے ہیں۔’’کوئے ظرافت‘‘پر معروف محقق‘نقاد اور تاریخ دان ڈاکٹر سلیم اختر مرحوم کا دیباچہ بھی موجود ہے جنھوں نے انعام الحق جاوید کے ادبی کام کو بھرپور سراہا ہے۔یہ کتاب قلم فائونڈیشن نے شائع کی ہے جن کا دفتر بنک سٹاپ والٹن روڈ ،لاہور کینٹ میں ہے‘آپ پہلی فرصت میں یہ کتاب خریدیں اور مزاحیہ شاعری سے لطف اندوز ہوں۔میں سمجھتا ہوں کہ آج جب ہر انسان کسی نہ کسی پریشانی اور تکلیف سے دوچار ہے‘ ایسے میں ’’کوئے ظرافت‘‘کا مطالعہ ناگزیرہے۔ڈاکٹر انعام الحق جاوید کا ایک قطعہ ’’سیاست دان‘‘ملاحظہ فرمائیں:
یقیں کو بیچ سکتا ہے گماں کو بیچ سکتا ہے
مُکر سکتا ہے خود سے اور’’ہاں ‘‘کو بیچ سکتا ہے
پریشاں ہو رہے ہو کیوں پلاٹوں کے سکینڈل پر
زمیں کیا چیز ہے یہ آسماں کو بیچ سکتا ہے
’’رنگِ جیدی‘‘بھی ایک مزاحیہ شعری مجموعہ ہے جس کے شاعر مرحوم اطہر شاہ خان جیدیؔ ہیں۔جیدیؔ مرحوم ٹی وی کے ادکار ہی نہیں ایک صاحبِ طرز مزاحیہ شاعر بھی تھے۔انھوں نے اپنے مخصوص انداز میں کئی اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ نظم‘ غزل‘ قطعہ‘ واسوخت‘گیت اور فردیات‘ جس صنف میں بھی لکھا‘ظرافت کا حق ادا کیا۔ان کے انتقال کے بعد ان کی شاعری بھی فوت ہو جاتی اگر درویش منش دوست حسین مجروح ان کا مسودہ حاصل نہ کرتے اور سائباں تحریک کے پلیٹ فارم سے اس کی طباعت کا اہتمام نہ کرتے۔ راقم نے گزشتہ دو کالموں میں سائباں تحریک کے اغراض و مقاصد بتاتے ہوئے لکھا تھا کہ یہ تحریک انقلاب لے کر آئی ہے‘ہمارے ہاں کتاب پڑھنا اور خرید کر پڑھنا ختم ہو چکا تھا۔اس تحریک نے کتاب خرید کر پڑھنے کو بھی فروغ دیااور ساتھ ہی ایسے ادیبوں اور شاعروں کے مسودات کو چھاپنے کا کام شروع کیا جن کے انتقال کے بعد ان کا کلام ذہنوں سے محو ہوتا جا رہا تھا۔’’رنگِ جیدی‘‘پر انور مقصود‘‘ کی تفصیلی رائے بھی موجود ہے جسے آپ کتاب کا دیباچہ کہہ سکتے ہیں۔ یہ کتاب سائباں تحریک کے پبلی کیشنز سے شائع ہوئی ہے جن کا دفتر ۲۴۹۔ماڈل ٹائون میں ہے۔
’’رنگِ جیدی ‘‘سے ایک نمکین غزل ملاحظہ فرمائیں:
کہا تھا کس نے کہ عمر بھر کا وبال رکھنا
سسر پہ قرضے میں ساس کو یرغمال رکھنا
وہ سو چکا ہے تمہارا مہمان دال مارا
پلائو کھا لو تو سارے برتن کھنگال رکھنا
میں ٹھنڈے پانی سے غسل کرنے تو جا رہا ہوں
تم ایسا کرنا کہ چار انڈے ابال رکھنا
اگر نہ چاہو کہ مرغیاں مامتا کو ترسیں
تو لازمی ہے کہ ایک مرغا بھی پال رکھنا
وطن سے اپنے مٹائیں گے رشوت و سفارش
مگر ذرا میرے بھانجے کا تم خیال رکھنا
گئی نہ غربت میں اپنے جیدیؔ کی وضع داری
اگرچہ فاقہ ہے پھر بھی منہ میں خلال رکھنا