جنوری میں پے در پے بارشوں کے کم و بیش تین سلسلے برس چکے ہیںیا برس رہے ہیں۔ اس دوران عام معمول سے بڑھ کر آسمان سے پانی ہی نہیں برسا ہے یا برس رہا ہے بلکہ پہاڑوں اور پہاڑی مقامات پر کچھ زیادہ ہی برف باری کا سلسلہ بھی جاری چلا آرہا ہے۔ لگاتار بارشوں کے اس سلسلے سے میرا ذہن آج سے 65-70سال قبل اپنے بچپن اور لڑکپن کی عمر میں سردی کے موسموں میں کئی کئی دنوں تک برسنے اور جاری رہنے والی ہلکی پھلکی بارشوں جنہیں سردیوں کی "جھڑی"بھی کہا جاتا تھا کی طرف چلا گیا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ایک طرف میری طرح کے بچوں (لڑکوں)کو صبح فجر کی نماز کے بعد مسجد میں جا کر نماز اور کلموں کا سبق اور عربی قاعدہ کی تکمیل کے بعد ناظرہ قرآن پاک پڑھنا ہوتا تھا تو پھر سورج نکلنے پر گھر سے کچھ کھانے پینے کے بعد بستہ اُٹھا کر سکول بھی جانا ہوتا تھا۔ پرائمری سکول (جو اب ہائی سکول ہو چکا ہے) گائوں میں ہی تھا۔ بستہ اور تختی اٹھائے سکول جانا اتنا مشکل نہیں لگتا تھا البتہ کچی پکی گلیوں اور گائوں سے باہر سکول تک کچے راستے میں کیچڑ ہوتا تھا جس سے جوتے بھر جاتے تھے۔ مجھے نہیں یاد پڑتا کہ سردیوں کے ان دنوں میں ہم نے جرابیں پہن رکھی ہوتی تھیں نہ ہی کوئی گرم جرسی، سویٹر، کوٹ یا جیکٹ وغیرہ پہننے کو ہوتی تھی۔ ذرا کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھنے والے لڑکے کھیس لپیٹے ہوتے یا پھر میری طرح کے لڑکے جن کے گھروں میں کھیس نہیں ہوتے تھے انہوں نے سوتی کپڑے کی کوئی چھوٹی موٹی چادر لپیٹی ہوتی۔ یہ چادر سر ، کانوں، گردن اور سینے کے ساتھ لپیٹ کر کونوں سے اس طرح باندھ دی جاتی کہ جسم کے یہ حصے ڈھکے رہتے۔ اسے ہم "گِل گِیتی"کہتے تھے۔ ہلکی پھلکی بارش میں کپڑے بھیگ بھی جاتے لیکن سکول جانا ضروری ہوتا تھا۔ پھر آدھی چھٹی کو کھانا کھانے کے لیے گھر آتے تو ساتھ ہی تختی بھی اُٹھائی ہوتی جسے گھر میں دھوتے، اس پر سفید چکنی مٹی جسے "گاچی"کہتے تھے کا ہلکا سا لیپ کرتے اور تختی کو دائیں یا بائیں ہاتھ میں پکڑ کر زور سے آگے پیچھے لہراتے واپس سکول کا رخ کرتے۔
گائوں کے پرائمری سکول کا ذکر چلے تو بہت ساری باتیں یاد آنے لگتی ہیں لیکن میں بتانا یہ چاہ رہا تھا کہ بچپن ، لڑکپن کے ان دنوں میں سردیوں میں کئی کئی دنوں تک ہلکی ہلکی بارش جاری رہتی تھی تب بھی ہمارا سکول آنا جانا اور چھوٹے موٹے کام کرنا جاری رہتا تھا۔ اب چھ سات عشرے گزر چکے ہیں، بہت کچھ تبدیل ہو چکا ہے۔ موسموں میں بھی بہت تغیر آچکا ہے تو ہمارے رہن سہن میں بھی بڑی تبدیلیاں آچکی ہیں۔ موسمی بارشوں کی اگر مثال لیں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اب شاید یہ بے موسمی ہو چکی ہیں۔ پچھلے کچھ برس سے جنوری سے آخیر اپریل تک جتنی بارشیں ہو رہی ہیں میرے بچپن اور لڑکپن کے دنوں میں اور بعد کے برسوں میں ان مہینوں میں اتنی بارشیں کبھی نہیں ہوا کرتی تھیں۔ اب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں تو باہر بارش (ذرا ہلکی ) ہو رہی ہے جو پچھلے دو دنوں سے جاری ہے اور اس میں تیزی بھی رہی ہے ۔ بارش یا بارشوں کے ان
سلسلوں کے اثرات معمولات زندگی پر بھی پڑے ہیں ۔ میں اپنی بات کروں تو کہوں گا کہ سردی سے بچائوکے ضروری لوازمات بھی بڑی حد تک میسر ہیں۔ گرم کپڑے پہننے بھی نصیب ہیں، ہیٹر کے پاس بیٹھنا بھی دستیاب ہے لیکن اس کے باوجود سردی کا تصور اور اثر ذہن پر حاوی رہتا ہے۔ شاید یہ عمر کا تقاضا ہے یا زندگی کو ہم نے اتنا آسانیوں کا عادی بنا دیا ہے کہ ذرا سی بھی مشکل یا تکلیف کا سامنا کرنا پڑے تو جان نکلنے لگتی ہے۔65، 70برس قبل بچپن اور لڑکپن کے زمانے میں اور اس کے بعد بھی کئی برسوں تک ایسا نہیں تھا۔ اس زمانے میں سردیوں سے بچائو کے لیے پورے کپڑے بھی دستیاب نہیں ہوتے تھے اور کئی دنوں تک جاری رہنے والی ہلکی بارشوں (جھڑیوں) میں بھیگتے رہتے تھے تو پھر بھی معمولات زندگی اور سکولوں میں پڑھائی کے لیے آنا جانا جاری رہتا تھا۔
سکول جانے کی بات سامنے آئی ہے تویاد آرہا ہے کہ پرائمری کے بعد اگلی جماعتوں کی تعلیم کے لیے گائوں سے تین چار کلومیٹر کے فاصلے پر دوسرے گائوں میں قائم ہائی سکول میں داخلہ لینا پڑا۔ ان برسوں میں اس سکول میں چھٹی سے دسویں جماعت تک پڑھنے والے ہمارے گائوں کے لڑکوں کی تعد اد 70، 80کے لگ بھگ ہوا کرتی تھی۔ یہ چار پانچ ٹولیوں میں بٹ کر پیدل چلتے ہنستے کھیلتے ، گپیں لگاتے اور کبھی کبھار بعض لڑکے کسی بات میں آپس میں لڑتے جھگڑتے سکول کا رخ کرتے۔ تین چار کلومیٹر کا یہ فاصلہ زیادہ سے زیادہ پچیس تیس منٹوں میں طے ہوجاتا۔ چھوٹی جماعتوں کے کم عمر لڑکے کوشش کرتے کہ وہ بڑے لڑکوں کے قدم بہ قدم چلتے ہوئے بر وقت سکول پہنچ جایا کریں۔ بڑے لڑکے اکثر میری طرح کے کمزور لڑکوں کے بستے بھی اٹھا کر لیا کرتے ۔ بارشیں خواہ گرمیوں میں ہوں یا سردیوں کی جھڑیا ں ہوں سکول جانا ہی ہوتا تھا۔ ہاں البتہ کبھی کبھار بارش والے دن یا دنوں میں ایسا بھی ہوتا کہ لڑکوں کی کوئی ٹولی ادھر ادھر کھسک جاتی یا کوئی لڑکا یا لڑکے شکاری کتے لے آتے اور راستے سے ملحق ٹبوں ، ٹیلوں ، کنووں ، غاروں اور بلوں میں گیدڑوں ، لومڑیوں اور سیہہ (درمیانی جسم کے کتے کے برابر جسم کا مالک جنگلی جانور جس کے منہ اور آنکھوں کو چھوڑ کر پورے جسم پر پانچ چھ انچ لمبائی کے سخت اور نوک دار کانٹے نکلے ہوتے ہیں) جیسے جنگلی جانوروں کا شکار کرنے نکل جاتے۔ اپنی ہائی سکول کی تعلیم کے دوران میں بھی اس طرح کا شکار کرنے والی اپنے محلے کے لڑکوں کی ٹولی میں بطور تماشائی دو تین بار شامل رہا ہونگا۔ ہر بار ہماری ٹولی کے سرغنہ لڑکے جو عرصہ ہوا اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں اپنے شکاری کتوں سے سیہہ کا شکار کرنے میں کامیاب رہے۔ جس کسی کھوہ ، غار یا بل کے بارے میں شک ہوتا کہ یہ سیہہ یا کسی دوسرے جنگلی جانور کا ٹھکانہ ہو سکتا ہے ، وہاں شکاری کتے یا کتوں کو ہلہ شیری کرکے آگے دھکیل دیا جاتا۔ کتا یا کتے کھوہ یا بل کے اندر جانے کے بعد بھونکنا شروع کردیتے تو اس بات کی نشانی ہوتی کہ کھوہ یا بل کے اندر کوئی جنگلی جانور موجود ہے ۔ پھر ایسے لگتا کہ کتا یا کتے اور بل کے اندر موجود جنگلی جانور آپس میں لڑ رہے ہیں۔ باہر شکاری ٹولی کے سرغنہ لڑکے اپنے کتے یا کتوں کی ہلہ شیری کے لیے اونچی اونچی آوازیں ہی نہ نکالنا شروع کر دیتے بلکہ اپنے ہاتھوں میں اٹھائی کلہاڑی یا موٹے سے ڈنڈے کو بھی زیادہ مضبوطی سے تھام لیتے کہ جنگلی جانور کتوں سے لڑتے ہوئے باہر نکلے تو اسے اپنے وار کا نشانہ بنا سکیں۔بارش کے دنوں میں اس طرح کی شکاری مہم مات زیادہ تر کامیابی سے ہم کنار ہوتیں البتہ اگلے دن سکول میں غیر حاضری کی وجہ سے پی ٹی آئی سر جوت علی شاہ مرحوم جو سابقہ فوجی تھے اور جن کا تعلق سکول والے گائوں سے ہی تھا کے ڈنڈوں کی سزا بھی بھگتنا پڑتی تھی۔
بارش کے دنوںمیں کیے جانے والے شکار کی یہ تفصیل بیچ میں آگئی ورنہ ذکر اس بات کا ہو رہا تھا کہ سردیوں کی بارشیں اور جھڑیاں بھی جاری رہتی تھیں اور پیدل تین چار کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے دوسرے گائوں میں ہائی سکول میں جانا بھی لازمی ہوتا تھا۔ مزے کی بات کہ سڑک کچی تھی اور اس پر پھسلن بھی بہت ہوتی تھی ۔ درمیان میں ایک آدھ سو میٹر طویل ڈھلانی راستہ بھی تھا جس پر پھسلنے اور لڑھکنے کے بہت خدشات بھی ہوتے تھے اور پھر اس دور میں سردیوں کے لیے گرم کپڑے بھی ناکافی ہوتے تھے۔ میں نے اوپر ذکر کیا کہ سردی سے بچائو کے لیے کھیس وغیر ہ اوڑھے جاتے تھے ۔ کھیس سمجھ لیجئے گرم چادروں (اُونی دھاگوں سے بنی لوئیوں) کی جگہ دستی کھڈیوں پر موٹے سوتی دھاگے سے بنی ہوئی ایک طرح کی چادریں ہوتی تھی جن کے سروں پر شوخ رنگین دھاگوں سے بنی ہوئی پٹیاں ہوتی تھی۔ تھیں کا لفظ میں نے اس لیے استعمال کیا کہ اب بھی دیہات میں موٹر سائیکلوں پرسوارپھیری والے کھیس کی آوازیں لگا کرکھیس وغیرہ بیچا کرتے ہیں لیکن یہ ان کھیسوں جن کا میں ذکر کر رہا ہوں کاکسی لحاظ سے بھی مقابلہ نہیں کر سکتے۔ مجھے یاد پڑتا ہے 60، 70 سال قبل اس دور میں ہمارے لوگ اکثر اپنے کنوئوں کی چاہی زمینوں میں کپاس کاشت کیا کرتے تھے۔ سفید ریشے والی کپاس کے ساتھ اخروٹ کے رنگ والے ریشے کی کپاس بھی ہوا کرتی تھی جسے "نرما"کہا جاتا تھا۔ اس کے ریشے سے گھروں میںدستی چرغوں پر اخروٹی رنگ کا دھاگہ کاتاجاتا تھا ۔ پھر یہ دھاگہ دستی کھڈیوں پر یہ کپڑا (کھدر) اورکھیس بننے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ کھیس بنانے کے لیے رنگین ریشمی دھاگے کی اٹیاں (رِیلیں) بھی استعمال ہوتی تھیں۔ جن سے کھیسوں کے لمبائی والے دونوں کنارے بُنے جایا کرتے تھے۔ ہمارے گائوں میں بھی ایک دستی کھڈی تھی جس پر ایک بزرگ کھدڑ نما سوتی کپڑا اور کھیس وغیرہ بُنا کرتے تھے۔ مجھے بڑا شوق تھا کہ میں دیکھوں کیسے کپڑا بننا جاتا ہے۔ اب نہ وہ بزرگ رہے ، نہ وہ دستی کھڈی رہی ، نہ ہی کوئی کپڑا بننے والا رہا البتہ اس دور کی یادیں ہیں جو بعض اوقات ایسے ستاتی ہیں کہ جی چاہتا ہے کہ کاش وہ وقت لوٹ آئے اور مجھے انہی ہوائوں ، فضائوں اور زمانوں میں زندگی کے دن گزارنے نصیب ہو جائیں اور خواہ سردیوں کی ان بارشوں میں سکول جاتے ہوئے ناکافی گرم کپڑے ہونے کی بنا پر بھیگنا ہی کیوں نہ پڑے۔