حیات ایک ایسا پل صراط ہے جس پر ہر قدم پہلے قدم سے زیادہ احتیاط کا محتاج ہوتا ہے۔زندگی نت نئے سانحات سے بھری پڑی ہے۔سماجی اور معاشی پیچیدگیاں اس قدر زیادہ ہو گئی ہیں کہ زندگی کی صبح کرنا اور شام لانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔اس حیاتِ مستعار و بیزار میں بہت کم لوگ ایسے رہ گئے ہیں جنہیں مطالعے کا شوق ہے یا کتاب سے شغف ہے۔نسلِ نو تو کتاب سے آشنائی،کتاب سے محبت اور کتاب بینی کے شوق سے کوسوں دور جا پڑی ہے۔آج کے الیکٹرانک میڈیا نے پرنٹ میڈیا پر قبضہ جما کر کتاب کا حسن برباد کر دیا ہے اور کتابوں پر گرد جمنے کے علاوہ دیمک معاشی طور پر خوشحال ہو گئی ہے بلکہ دیمک کو پیٹ بھرنے کے لیے تگ و دو نہیں کرنا پڑتی۔ادبی صورت حال تو یہ کہ ہر شاعر کا پانچ سوکا ایڈیشن برسوں تک محوِ منتظر رہتا ہے کہ کوئی ردی والا ہی اٹھا لے مگر ان کی قسمت میں وصالِ یار نہیں ہوتا۔کتاب سے دوری کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ ہم اخلاقی،سماجی،معاشرتی اور نظریاتی انحطاط کا شکار ہو گئے ہیں۔نظریات میں ٹکراؤ کی سب سے بڑی وجہ کتاب سے دوری اور مطالعہ کی کمی ہے۔اگر ہمارا یہی رویہ مستقبل قریب میں بھی برقرار رہا تو ہماری جہالت کی آکاس بیل اسی طرح پھیلے گی کہ ہمارے اذہان کے نہاں خانوں سے ہمارے مشاہیر محو ہو جائیں گے اور کتابیں صرف عجائب گھروں میں مقید ہو جائیں گی۔کشاکش اور بے اعتنائی کے اس دور میں ہمارے پیارے علامہ عبدالستار عاصم دنیا و ما فیہا سے بے خبر ہو کتاب سے عشق کے عمل کو پروان چڑھا رہے ہیں۔علامہ عبدالستار عاصم ایک
خوبصورت شاعر، طرحدار کالم نگار ،علم دوست،پبلشر اور کتاب سے بے پناہ محبت کرنے والے انسان ہیں۔آپ بغیر کسی صلے،لالچ اور ستائش کے اپنے کام میں ایسے مگن ہیں کہ کوہکن کا نام آپ کے سامنے شرمندہ ہے۔ آپ نے شاعری، ناول، ڈرامہ، افسانہ، صحافت،سیاست،سوانح عمری اور دیگر موضوعات پر بے شمار کتابیں چھاپی ہیں۔آپ اردو زبان کی ترویج اور اردو ادب کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔کہتے ہیں کہ جب نوبل انعام یافتہ ہندوستانی شاعر اور ادیب رابندر ناتھ ٹیگور معروف امریکی ادیبہ اور ماہرِ تعلیم ہیلن کیلر سے ملے تو وہ آپ حیران ہوئے کہ وہ نابینا اور بہری تھیں مگر ہیلن کیلری نے رابندر ناتھ ٹیگور کو ان تاریخی الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا کہ’’رابند ناتھ ٹیگور کے پاس بیٹھ کر ان کے خیالات جاننا،بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص کسی مقدس دریا کے پاس بیٹھے اور علم و دانش کا امرت پیتا چلا جائے‘‘۔ میرا کہنا بے جا نہ ہوگا کہ علامہ عبدالستار بھی ایسی ہی عملی،ادبی اور تحقیقی خوبیوں کے مالک ہیں۔آپ ایک ایسے گوہر نایاب ہیں کہ جس پہچان ایک علمی و ادبی جوہری کے ہی بس کی بات ہے۔’’داستانِ عزم‘‘ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر کی خودنوشت ہے۔ اسے چھاپنے کا اہتمام خود علامہ عبدالستار عاصم نے اپنے ادارے قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل لاہور سے کیا۔یہ بہت بڑا خراج تحسین ہے جو علامہ عبدالستار عاصم نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خود نوشت چھاپ کر ڈاکٹر صاحب کو پیش کیا ہے۔یہ وہ کتاب ہے جو کم از کم ہر پاکستانی اور محب وطن کو پڑھنی چاہیے تاکہ ہر شہری کو ان چشم کشا حالات کا اندازہ ہو کہ محسن پاکستان کی خدمات کیا تھیں؟اور ہم نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟اور ہم اپنے محسنوں کے ساتھ کیسا برتاؤ کرتے ہیں ؟یہ کتاب گیارہ عنوانات پر مشتمل ہے۔پہلے عنوان (حروفِ اعزاز) میں ڈاکٹر صاحب کی پیدائش سے لے کر تعلیمی ادوار اور خاندانی پس منظر کو قلمبند کیا گیا ہے۔دوسرا عنوان سانحہ مشرقی پاکستان کی کہانی کو ہمارے سامنے لاتا ہے۔تیسرے عنوان میں تاریخ کہوٹہ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔چوتھا عنوان بہت خوبصورت اور اہم ہے۔یہ باب اس تاریخ ساز دن کے بارے میں ہے۔جس دن ایٹمی دھماکے کیے گئے تھے۔پانچواں عنوان کہوٹہ میں بیتے دنوں کی کہانی ظاہر کرتا ہے۔چھٹا عنوان سابق صدر غلام اسحاق خان کو لکھے گئے ایک خط کے متعلق ہے۔آٹھواں عنوان پرویز مشرف کے ایک خطاب کے بارے یہ وہ عنوان ہے جس میں پرویز مشرف نے ڈاکٹر صاحب کو بھرپور خراج تحسین پیش کیا اور ان کی قومی خدمات کا بھر پور اعتراف کیا۔آٹھواں عنوان ’’ذوالفقار علی بھٹواور میرا مراسلہ ‘‘ کے متعلق ہے۔نواں عنوان’’ایک اور قربانی‘‘ کے عنوان سے اپنے صفحہ کی زینت بنا ہوا ہے۔ اسی طرح دسواں عنوان ’’چودھری شجاعت حسین کا واشگاف انکشاف‘‘ کے نام ہے۔آخری عنوان ’’ایک واقعہ… تاریخی نتائج‘‘ پر مبنی ہے۔میں ذاتی طور پر علامہ علامہ عبدالستار عاصم کا شکر گزار ہوں کہ وہ محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خود نوشت منصہ شہود پرلے کر آئے اور قومی ہیرو کے خیالات و افکار کے بارے معلومات بہم پہنچائیں۔اللہ آپ کا حامی ناصر ہو۔