نقیب اللہ محسود کیخلاف تمام دائر مقدمات خارج

نقیب اللہ محسود کیخلاف تمام دائر مقدمات خارج
کیپشن: نقیب اللہ کے سوشل میڈیا پروفائل سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک لبرل، فن سے محبت کرنے والا نوجوان تھا، عدالت۔۔۔۔۔۔فائل فوٹو

کراچی: کراچی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے گذشتہ سال پولیس مقابلے میں قتل ہونے والے مقتول نقیب اللہ محسود کے خلاف دائر دہشت گردی، اسلحہ و بارود رکھنے کے الزام میں دائر پانچوں مقدمات خارج کر دیے ہیں۔

عدالت نے قرار دیا کہ نقیب اللہ کے سوشل میڈیا پروفائل سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک لبرل، فن سے محبت کرنے والا نوجوان تھا جو ماڈل بننے کا خواہشمند تھا۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ایس ایس پی انویسٹی گیشن عابد قائم خانی کی پانچ رپورٹس کی روشنی یہ مقدمات خارج کرنے کا حکم جاری کیا۔ نقیب اللہ کے خلاف دائر پانچوں مقدمات کی الگ، الگ تحقیقات کی گئی اور تمام الزامات کو گمراہ کن قرار دیا گیا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ پولیس کی تحقیقاتی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ شاہ لطیف تھانے کے ایس ایچ او امان اللہ مروت کی سربراہی میں پولیس کو بکتر بند گاڑی میں گشت کے دوران خفیہ اداروں سے معلومات ملی کہ عثمان خاصخیلی گوٹھ میں داعش اور لشکر جھنگوی کے دہشت گرد ایک سیف ہاؤس میں موجود ہیں۔

ایس ایچ او نے حکام بالا کو آگاہ کیا اور مزید نفری طلب کی اور جس کے بعد کیے گئے مقابلے میں نقیب اللہ اپنے دو اور ساتھیوں سمیت مارا گیا۔

عدالت کے تحریری فیصلہ میں بتایا گیا ہے کہ ایس ایس پی عابد قائم خانی کی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ نقیب اللہ کو 4 جنوری 2018 کو دو افراد، محمد قاسم اور حضرت علی کے ہمراہ کراچی کے علاقے ابو الحسن اصفہانی روڈ پر واقع ایک ہوٹل سے اٹھایا گیا لیکن بعد میں دونوں ساتھیوں کو چھوڑ دیا گیا جنہوں نے بطور چشم دید گواہ بیان بھی قلمبند کرائے ہیں۔

عدالت کے حکم نامے کے مطابق مشتبہ مقابلے کی ایف آئی آر کے مطابق پولیس کے چند اہلکاروں کی وہاں پر موجودگی کی تصدیق ہوتی ہے جبکہ موبائل ٹیلیفون کے ریکارڈ کے تجزیے کے مطابق ایس ایس پی راؤ انوار کی بھی موجودگی کا پتہ چلتا ہے۔

راؤ انوار کے میڈیا میں دعوے اور کمیٹی کے روبرو بیان کے برعکس نصیب اللہ عرف نقیب اللہ کی کسی دہشت گردی کی سرگرمی میں ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ جائے وقوع سے ملنے والے شواہد اور فرانزک رپورٹ الزامات کو ثابت نہیں کرتے لہذا پانچوں مقدمات خارج کیے جاتے ہیں۔

خیال رہے کہ گذشتہ سال جنوری میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے نقیب اللہ کو تین ساتھیوں سمیت پولیس مقابلے میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور اس کا تعلق شدت پسند تنظیم داعش اور لشکر جھنگوی سے ظاہر کیا تھا۔