انسان ایک دوسرے سے مل کر تقویت اور فروغ پاتا ہے۔سننا اور سنانا، باہم باتیں کرنا، ایک دوسرے کے حال احوال کی خبر رکھنا، اپنی کاوشات وحاصلات پر دوسروں کی تائید اور پزیرائی چاہنا،دوسروں کے کاموں پر تبصرہ کرناشروع دن سے ہی انسانی فطرت کا خاصا رہا ہے۔۔۔!
تنقید، تخلیق اور تحقیق کے ہنر کو تیز دھار سان پر نکھار بخشتی ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ ہونے والا تبادلہ خیال فن اور فکر کی نئی راہیں کھولتا ہے، پھول اور کانٹے کے حسین امتزاج سے فطرت کے گلرنگ پھول کھل کر ہر طرف بہار کے رنگ ہویدا کرتے ہیں۔۔۔! اس کے ساتھ ساتھ اگر ایک اور زاویہ نظر سے دیکھا جائے تو ایک دوسرے کے معاملات میں شامل ہونا، فنی وفکری طور پر ایک دوسرے کی سننا اور سنانا بہت ضروری ہے۔اس سے ایک طرف تو انسان اس کاوش میں اپنا حصہ ڈالتا ہے جبکہ دوسری طرف، ایک طرح سے اس تخلیق و تحقیق میں بلاواسطہ طور پر شامل بھی ہو جاتا ہے۔۔۔!
تخلیق کار کے سامنے تخلیق و تحقیق کے وقت لاشعوری طور پر ہر اس شخص کا چہرہ جو اس کے کام میں دلچسپی لیتا ہے، اس کی پسند و ناپسند سامنے آجاتی ہے اور وہ کہیں سرا ہے جانے کی طلب میں اور کہیں کسی کی تنقید کے تیردھار نشترسے بچنے کے لیے اپنے معیار کو بہتر کرتا ہے۔اپنے کام پر مزید توجہ دیتا ہے، اس میں اپنا خون جگر شامل کرتا ہے، جس سے اس کا فن اورفکر نکھر کر اور زیادہ بہتر انداز میں سامنے آتا ہیں۔۔۔! گویایہ سنانے والے کا اپنی ذات کے اوپر بھی ایک احسان ہوتا ہے۔۔۔! علاوہ ازیں، ایمان والو ں کو سچ بات کہنے اور سچے لوگوں کا ساتھ دینے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔۔۔!
سننے اور سنانے کے اس عمل میں مشہور ہے کہ دو آدمی آگے پیچھے بھاگے جارہے تھے۔اور رکو۔۔رکو۔۔پکڑو۔۔ پکڑو۔۔ کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں۔ کسی نے پیچھے بھاگتے ہوئے فرد سے پوچھا کہ بھائی کیا ماجراہے۔۔۔اس نے آپ کی کوئی چیز چرائی ہے یا کچھ نقصان کیا ہے۔۔۔! وہ بھاگتے بھاگتے پھولی ہوئی سانسوں سے بولا کہ نہیں۔۔۔ ایسا تو کچھ نہیں۔۔۔اصل میں اس نے مجھے اپنی دو غزلیں سنائی ہیں اور میری ایک بھی نہیں سننے کو تیارنہیں۔۔۔!
سننے کے لیے اگر کان نہ ہو تو بولنے والے زبان کے بہت سے نغمے بھی اندر ہی اندر گھٹ جاتے ہیں۔ مجمع میں سامعین کی تعداد کم ہو تو مقرر کی تقریر کا دورانیہ اور جوش و جذبہ خود کار انداز میں کم ہو جاتا ہے۔۔کسی کتاب،کالم یا کاوش پر کوئی تبصرہ نہ ہوتو اس کا ہونا، نہ ہونے کی حدود کو چھونے لگتا ہے۔۔کسی کاریگر کی بنائی ہوئی عمارت کو دیکھنے والی آنکھ میسر نہ ہو تو بہتر سے بہترین کے بہت سے محرکات راستے میں ہی دم توڑ جائیں۔۔۔۔!
ایک دوسرے کے ساتھ قدم بقدم چلنا۔ ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کرنا، ایک ایسا جادوئی عمل ہے جس کا فائدہ ہر دو جانب ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ یہ فائدہ صرف اسے ہی ہوتا ہے جس کے بارے میں بات کی جائے بلکہ یہ فائدہ سب سے پہلے اس فرد کو ہوتا ہے جودوسرے کے بارے میں اظہار رائے کو اپنی زبان کھولتاہے یا قلم اٹھاتا ہے۔۔۔! سننے، سنانے اورحوصلہ افزائی کے اس تہہ در تہہ عمل میں شامل سلسلے کئی بار سننے والے کے ساتھ ساتھ سنانے والے کو بھی حیاتِ جاوداں بخش دیتے ہیں۔ بال جبریل کے دیباچے میں ڈاکٹر علامہ اقبال ؒ کے حوالے سے کہے گئے ”سرعبدالقادر“ کے الفاظ و جذبات اور ان کی اثر پزیری سے کس کو انکار ہے۔ اب ڈاکٹر علامہ اقبال ؒ کے نام کے ساتھ ساتھ ایک محرک کے طور پر تاریخ دان ہمیشہ سر عبدالقادر کو بھی خراج تحسین پیش کرتے رہیں گے۔۔۔۔!
اس لیے توقع ہے کہ اس سے قبل دوستوں کے جو دوست اور احباب اپنی کسی سستی،کوتاہی، حکمت عملی،تعصب، حسد، غفلت یا کسی اور جذبے و خیال سے ایک دوسرے کو سننے اور سنانے سے گریزپاء رہتے تھے۔ اب سے وہ آگے بڑھ کر ایک دوسرے کو خوب کھری کھری سنائیں گے۔اور کھری بھی ایسی ایسی کہ سننے والے کی طبیعت صاف ہو جائے۔۔اس کا مزید فائدہ تو وقت پر منحصرہے، کم از کم وقتی طور پرایک سیاسی و معاشرتی گٹھن زدہ فضاؤں میں ان کے دل کی بھڑاس ضرور نکل جائے گی۔سوکالم برائے تبصرہ و تجزیہ حاضر ہے۔امید ہے کہ دوست محروم خاطر رکھنا پسند نہیں فرمائیں گے اور اپنے اپنے انداز میں حاشیہ آرائی فرما کر شکریے کا موقع فراہم کریں گے۔ اور ویسے بھی ایک دوسرے سے رابطے میں رہنا باعث خیر وبرکت اور زندگی کی راہیں آسان کرنے والا کام ہے۔ اس سے کچھ نقصان نہیں فائدہ ہی حاصل ہوتا ہے۔اچھے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کی فراخ راہوں کا ایک سلسلہ اس راہ سے بھی نکلتا ہے، بس قدم اور قلم اٹھانے کی دیر ہے۔۔۔!