مقبولیت کہاں ہے

مقبولیت کہاں ہے

پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کے مسئلہ پر چیف جسٹس نے ا ز خود نوٹس لیتے ہوئے نو رکنی بنچ تشکیل دیا جس میں حسب سابق سینئر ترین جج جناب قاضی فائز عیسیٰ شامل نہیں ہیں لیکن اس کے بر عکس ایک فریق کو جن دو محترم ججز پر شدید قسم کے تحفظات ہیں اور انھوں نے اس کا اظہار بھی کیا ہے اور ان مذکورہ دونوں ججز کو حکومتی کیسز میں شامل نہ کرنے کی استدعا بھی کی ہے اس کے باوجود انھیں بنچ میں شامل کیا گیا اس کے علاوہ سماعت کی ابتدا میں ہی کسی اور نے نہیں بلکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے از خود نوٹس پر اور بنچ میں شامل ایک رکن پر بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا جس کی وجہ سے از خود نوٹس اور اس کی سماعت کرنے والے بنچ پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان لگ چکا ہے لیکن اس پر بات پھر ہو گی حال کی گھڑی میں تو بات کریں گے عمران خان کی اس بے پناہ مقبولیت کی کہ جو ہمیں کوشش کے باوجود بھی کہیں نظر نہیں آ رہی۔ بات شروع کرتے ہیں جس دن 27 مارچ 2022کے اس جلسہ سے جب عمران خان نے کاغذ کے ایک ٹکڑے کو سائفرکہہ کر لہراتے ہوئے سازشی بیانیہ عوام کے سامنے پیش کیا۔سائفر لہرانے سے بات اس لئے شروع کی کیونکہ اس سے پہلے جب تحریک انصاف کی حکومت تھی تو شیخ رشید کا بیان موجود ہے کہ حکومت کی کارکردگی ایسی تھی کہ بقول شیخ رشید کے وہ انتخابی مہم کے دوران حلقہ میں عوام کے پاس جانے کے قابل بھی نہیں رہے تھے۔جس دن سائفر لہرایا گیا تو ایک زبردست پروپیگنڈا مہم شروع کی گئی کہ جس میں بتایا گیا کہ کچھ تصوراتی اقدامات کہ جن کا حقیقت سے کوئی دور پار کا بھی واسطہ نہیں تھاان کی وجہ سے امریکہ بہادر خان صاحب کے خلاف ہو گیا ہے اور امریکن سازش کی وجہ سے پاکستان میں رجیم چینج آپریشن ہوا۔وہ تصوراتی اقدامات کیا تھے کہ جس نے امریکہ کو اتنے بڑے ایکشن پر مجبور کیا۔ ایک تو عوام کوبتایا گیا کہ خان نے امریکہ کو ”ایبسولوٹلی ناٹ“ کہہ کر منہ توڑ جواب دیا ہے۔ خان صاحب کے فین کلب والوں نے اس ”Absolutely Not“کے اسٹکر بنوا کر اپنی گاڑیوں پر چسپاں کئے لیکن جب امریکہ نے کہا کہ ہم نے تو پاکستان سے کچھ ڈیمانڈ کی ہی نہیں تو عقدہ کھلا کہ یہ تو ایک صحافی کے انٹرویو میں سوال کے جواب میں خان صاحب نے کہا تھا۔
اس کے بعد مقبولیت کا پہلا امتحان اس دن ہوا کہ جس دن رات بارہ بجے کے بعد جا کر عدم اعتماد ہوا۔ اس دوران پورا دن تھا اور حالات سب کے سامنے تھے لیکن کہیں پر عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تو کیا عوام کاچھوٹا سا ریلہ بھی باہر نہیں نکلا۔ اس کے بعد آٹھ مہینوں میں 100کے قریب جلسے کئے گئے یعنی ہر دو تین دن بعد ایک جلسہ لیکن یہاں پر بھی 
کہیں مقبولیت ثابت نہیں ہو سکی بلکہ ہر گذرتے دن کے ساتھ مقبولیت کا وہ بھرم جو سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر پروپیگنڈا کے بل بوتے پر قائم کیا گیا تھا وہ ٹوٹنا شروع ہو گیا اور 25مئی کو کہ جب پورے پاکستان سے کارکنوں کو کال دی گئی تھی لیکن حالت یہ تھی کہ لاہور میں راوی روڈ پر دو تین سو کارکنوں کے علاوہ کہیں عوام نظر نہیں آئے۔ لاکھوں افراد کے دعوؤں کے باوجود راولپنڈی میں عوام کی طاقت نظر نہیں آئی تھی۔ کہتے ہیں کہ قدر کھو دیتا ہے روز کا آنا جانا اور بعینہ یہی کچھ تحریک انصاف کے ساتھ ہو رہا ہے۔ جب کسی چیز کی زیادتی ہوتی ہے تو اس کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے۔ ہر دوسرے تیسرے دن جلسہ اور جب جلسوں کا سلسلہ ختم ہوا تو پھر کم و بیش ہر روز ہی ٹیلی وژن پر خطاب اور ستم ظریفی دیکھیں کہ ہر تقریر میں دو تین باتوں کے علاوہ کوئی نئی بات نہیں اور انہی کی تکرار تو کوئی بھی ہو آخر کتنے دن اور کتنی بار ایک ہی چیز اور وہی باتیں برداشت کرے گا اور انسانی فطرت کے عین مطابق عمران خان کے مخالفین کو تو چھوڑیں خود ان کے حامیوں میں بھی بیزاری پیدا ہونا شروع ہو گئی تھی اور اس پر طرہ یہ کہ جب ہر گذرتے دن کے ساتھ گذشتہ دن کے بیانیہ کے بر عکس ایک نیا بیانیہ تراشنا ہے تو بے اصولی بھی کوئی ایک مرتبہ دو مرتبہ ہضم ہوتی ہے آخر کوئی ایسا معدہ کہاں سے لائے کہ جو خان صاحب کے ایک ہی طرز کے بھاشن اور یو ٹرن ہضم کر سکے ایسے میں مقبولیت میں چار چاند نہیں لگتے بلکہ جو لگے ہوتے ہیں انھیں بھی تاریکی نگل لیتی ہے۔
اس کے بعد مقبولیت کا ایک اور بڑا اور اہم مرحلہ اس وقت آیا کہ جب سندھ اور وفاق کے سوا پورے ملک میں تحریک انصاف کی حکومتیں تھیں۔ لبرٹی چوک لاہور سے لانگ مارچ شروع کیا گیا اپنی حکومت اپنی پولیس نہ کسی لاٹھی چارج کا خطرہ اور نہ ہی جیل جانے کا خوف لیکن آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور سے لانگ مارچ اس طرح روانہ ہوا کہ شاہدرہ تک پہنچ کر ہی شارٹ مارچ ہو گیا اور پھر وہ لانگ مارچ اس قابل ہی نہیں رہا کہ بندوں کو ساتھ لے کر مارچ ہو بلکہ اس کا حل یہ ڈھونڈا گیا کہ ایک جگہ جلسہ کرنے کے بعد لانگ مارچ ختم ہو جاتا اور پھر اس سے اگلے دن شام کو اگلے شہر میں جلسہ کر لیا جاتا اور ان میں عوام کی تعداد دو ڈھائی ہزار سے زیادہ نہیں ہوتی تھی۔اس کے بعد بھرپور تیاری، سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر پروپیگنڈا کا ایک طوفان کہ راولپنڈی میں پچیس سے تیس لاکھ لوگ تو آئیں گے لیکن اس سے زیادہ بھی ہو سکتے ہیں اور پھر مقبولیت کے چراغوں میں روشنی اس وقت گل ہو گئی کہ جب انتہائی مایوس کن تعداد کو دیکھتے ہوئے بوکھلاہٹ اور اضطرابی کیفیت میں بغیر کسی سے مشورہ کئے پنجاب اور خیبر پختون خوا دونوں صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کر دیا۔اس کے بعد مختلف مواقع پر احتجاج کی کالز دی گئیں لیکن ان تمام مواقع پر عوام نے ان کالز کو اتنی بھی پذیرائی نہیں بخشی کہ ان کالز کے نتیجہ میں ہونے والے احتجاج کی خبروں کو میڈیا میں کہیں اچھی جگہ ہی مل سکے۔ اسی ہفتہ جب خان صاحب لاہور ہائیکورٹ میں پیش ہوئے تو اتفاق سے اسی وقت ہم لاہور ہائیکورٹ کے سامنے سے گذر رہے تھے اور ٹریفک شام کے معمول کے رش کے ساتھ روانی سے چل رہی تھی۔ جیل بھرو تحریک مقبولیت کے بھرم کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو رہی ہے۔ لاہور میں دو سو کے بجائے 81کارکنوں نے گرفتاری دی اور اس موقع پر تین چار سو افراد موجود تھے اور خیبر پختون خوا کہ جو تحریک انصاف کا گڑھ سمجھا جاتا ہے وہاں پر ایک سابق وزیر کے علاوہ کسی نے گرفتاری ہی نہیں دی اور بری طرح فلاپ ہونے کے بعد کہا جا رہا ہے کہ عمران خان نے جیل بھرو تحریک ملتوی کر دی۔ اب ہمیں کوئی یہ بتا دے کہ پنجاب کی بیس اور قومی اسمبلی کی آٹھ نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں اگر ہم کہتے ہیں کہ اس میں فرشتوں نے ووٹ ڈالے تھے تو ہم پر اعتراض کیسا اور ہمیں یقین ہے کہ فرشتوں کی ایک بہت بڑی تعداد ان کے جلسوں میں بھی شرکت کرتی ہو گی۔ اس لئے عمران خان اگر انسانوں میں مقبول ہوتے تو پھر وہ انسان آخر پر امن جلسوں میں نظر کیوں نہیں آتے۔