پروفیسر ڈاکٹر مہدی حسن بھی اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے۔ اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائے۔ ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین۔ سچ یہ ہے کہ ابھی تک پروفیسر ڈاکٹر مغیث الدین شیخ کی رخصتی کا زخم بھی تازہ ہے۔ ڈاکٹر احسن اختر ناز کی وفات کو برسوں بیت گئے، لیکن ان کی کمی محسوس بھی ہوتی ہے۔ اب ڈاکٹر مہدی حسن بھی ہمیں چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ یہ وہ نام ہیں جنہوں نے جامعہ پنجاب کے شعبہ صحافت کو استحکام بخشا ۔ اسے بام عروج تک پہنچایا۔ جرنلزم ڈیپارٹمنٹ کے نام سے شروع ہونے والا شعبہ، انسٹی ٹیوٹ آف کمیونیکیشن اسٹڈیز بنا ۔آج یہ اسکول آف کمیونیکیشن اسٹڈیز کہلاتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ اس ادارے کی تعمیر و ترقی میں ان اساتذہ کی محنت شامل ہے۔ میرے لئے نہایت اعزاز کی بات ہے کہ مجھے یونیورسٹی میں ان تینوں اساتذہ سے پڑھنے اور سیکھنے کا موقع ملا۔ اللہ کے فضل سے وہ وقت بھی آیا جب برسوں تلک ان تینوں کے سا تھ مختلف اداروں میں بطور کولیگ کام کیا۔ ایک زمانہ تھا جب یہ شخصیات ہمیں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں متحرک دکھائی دیا کرتیں۔ ان تینوں نے اپنے اپنے طریقہ تدریس اور نظریات کے مطابق صحافت کے طالب علموں کی تربیت کی۔ یہ تینوں اساتذہ مختلف سیاسی اور صحافتی نظریات رکھتے تھے۔ خصوصی طور پر ڈاکٹر مہدی حسن اور ڈاکٹر مغیث شیخ مخالف بلکہ متصادم نظریات کے حامل تھے۔ ان کے باہمی اختلاف رائے کے کئی قصے اور دھواں دھار قسم کے جھگڑے بھی مشہور ہیں۔ تاہم نظریاتی اختلافات سے قطع نظر ، دونوں نہایت قابل اور محنتی اساتذہ شمار ہوتے ۔ شاگرد ،ان کے گرویدہ تھے۔ سینکڑوں، ہزاروں شاگردوں کی انہوں تربیت کی۔ پاکستانی میڈیا انڈسٹری کو انہوں نے کئی نامور صحافی د ئیے ۔
ڈاکٹر مہدی حسن نے کم و بیش پچاس برس تک شعبہ تدریس کی خدمت کی۔ پنجاب یونیورسٹی سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ فارغ نہیں بیٹھے۔ مختلف جامعات کیساتھ بطور پروفیسر منسلک رہے۔ کئی پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں میڈیا اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹس کے سربراہ رہے۔ اپنی وفات سے چند ماہ پہلے تک وہ پنجاب یونیورسٹی کے ادارہ علوم ابلاغیات میں باقاعدگی سے لیکچر دیا کرتے تھے۔ ضعیف العمری کے باوجود ، ان کی ذہانت فطانت قابل دید تھی۔ ان کی یادداشت بھی کمال کی تھی۔ پاکستان کی سیاسی اور صحافتی تاریخ انہیں ازبر تھی۔ ڈاکٹر صاحب کلاس روم میں ہوتے یا کسی سیمینار میں،گفتگو کے دوران موضوع پر کامل گرفت قائم رکھتے۔ خودداری اور عجز کا یہ عالم تھا کہ یونیورسٹی تشریف لاتے تو اپنا بریف کیس خود تھامے رکھتے۔ کسی شاگرد یا ملازم کو اپنا بیگ پکڑانا انہیںنا پسند تھا۔ سنتے ہیں کہ جب شعبہ صحافت کے سربراہ تھے تو نائب قاصد کو بلانے کیلئے اپنے دفتر میں رکھی گھنٹی بجانے سے گریز کیا کرتے۔ نائب قاصد کو بلانا مقصود ہوتا تو اپنی سیٹ سے اٹھ کر جاتے اور دروازہ کھول کر اسے آواز دیتے۔
ایک بہت بڑی خوبی ان کی یہ تھی کہ اپنے خیالات کا اظہار کرتے وقت ہر طرح کی مصلحت کو بالائے طاق رکھ دیا کرتے تھے۔جمہوری نظریات کے حامل تھے۔ سیاستدانوں کے سامنے بھی حق سچ کہنے سے نہیں چوکتے تھے۔ فوجی آمریتوں سے انہیں عمر بھر نفرت رہی۔ ان کی یہ ناپسندیدگی آخری وقت تک قائم تھی۔ کھل کر اس کا اظہار بھی کیا کرتے ۔
سنتے ہیں کہ جوانی میں وہ جامعہ پنجاب کی اساتذہ سیاست میں متحرک تھے۔ اپنے نڈر رویے اور جمہوری افکار کی وجہ سے سترہ برس تک ان کی ترقی نہیں ہو سکی۔جنرل یحییٰ خان اور جنرل ضیا الحق کے دور حکومت میں انہیں ملازمت سے نکال دیا گیا۔لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔باقاعدہ قانونی جنگ لڑی اورنوکری دوبارہ حاصل کی۔ ان مشکلات و مصائب کے باوجود مرتے دم تک اپنے نظریات سے پیچھے نہیں ہٹے۔
ڈاکٹر مہدی حسن انسانی حقوق کے بہت بڑے علمبردار تھے۔ انسانی حقوق کے خلاف ہونے والے واقعات پر ہمیشہ اپنی آواز بلند کیاکرتے۔ ساری عمر مختلف اخبارات میں کالم لکھتے رہے ۔ قومی اور بین الاقوامی نشریاتی اداروں کے مختلف پروگراموں میں بطور مبصر شریک ہوتے اور کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرتے۔ انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے بہت سے اداروں کیساتھ بھی آپ منسلک رہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان جیسے نہایت اہم ادارے کے سربراہ رہے۔ڈاکٹر مہدی حسن آزادی صحافت کے بہت بڑ ے داعی تھے۔ صحافت پر لگنے والی قدغنوں پر ہمیشہ انہوں نے آواز بلند کی۔وہ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کی کونسل آف کمپلینٹس کے سربراہ بھی رہے۔ مجھے بھی کئی برس تک ڈاکٹر صاحب کیساتھ بطور کونسل ممبر کام کرنے کا تجربہ ہوا۔ میں نے مشاہدہ کیا کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے ، ڈاکٹر مہدی حسن آخری وقت تک کوشاں رہتے کہ آزادی اظہار رائے پر آنچ نہ آئے۔ ہمیں ٹیلی ویژن چینلوں اور اینکروں کے خلاف مختلف طرح کی شکایات موصول ہوا کرتی تھیں۔ڈاکٹر صاحب کسی ٹی وی چینل یا اینکر پرکچھ ہفتوں یا کچھ ماہ کی پابندی عائد کرنے کے بجائے، ڈانٹ ڈپٹ اور جرمانے سے کام چلایا کرتے۔ آزادی صحافت کے حمائتی ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ذمہ دارانہ صحافت کے علم بردار تھے۔ آج کے دور میں جس طرح صحافتی ضابطہ اخلاق کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں، اس پر افسردہ رہتے۔ گزرے زمانے کی صحافتی اقدار کا حوالہ دیتے اور اس ضمن میں ہمیں کئی قصے سنایا کرتے۔
ڈاکٹر مہدی حسن کی رخصتی سے شعبہ صحافت اور شعبہ تدریس کا ایک سنہری باب بند ہو گیا ہے۔ خیال آتا ہے کہ نجانے ان کا خلا کیسے پر ہو گا؟آج کے دور میں نظریاتی صحافت کرنے والے صحافی نایاب ہوتے جا رہے ہیں۔ اب تو آتے جاتے موسموں کیساتھ وفاداری تبدیل کرنے کا رواج چل نکلا ہے۔ جمہوریت اور جمہوری افکار سے بھی کسے غرض ہے۔کم وبیش یہی حال شعبہ تدریس میں دکھائی دیتا ہے۔ نظریاتی افکار کے حامل اساتذہ بھی خال خال دکھائی دیتے ہیں۔ سیاسی اور صحافتی نظریات پر جم کر کھڑے رہنے والے اساتذہ قصہ پارینہ ہو چکے۔ اب تونوکری بچانے اور ترقی پانے کی اندھی دوڑ لگی ہے۔نصابی باتوں سے نکل کر، جمہوریت اور آمریت کی بحث میں بھی کون وقت ضائع کرئے۔ دعا ہے کہ اللہ پاک ہمارے شعبہ صحافت اور شعبہ تدریس پر رحم فرمائے۔ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم ڈاکٹر مہدی حسن کی طرح حق سچ کہنے اور معاشرے میں ہونے والی نا انصافیوں کے خلاف اپنی آواز بلند کرنے کا حوصلہ پیدا کریں۔ آمین۔