وزیر خزانہ شوکت ترین نے گذ شتہ اتوار کو ٹویٹر پر بتایا کہ پاکستان 139 ممالک میں سب سے سستا ہے۔ یہ دعویٰ انہوں نے ’’نمبیو‘‘ نام کے ایک آزاد ڈیٹا بیس کے ’’کاسٹ آف لونگ انڈیکس‘‘ کی مدد سے کیا تھا، جس کا سکرین شارٹ بھی ان کے ٹویٹر پر شیئر کیا گیا۔ مذکورہ انڈیکس کی رو سے پاکستان امریکہ سمیت 139 ممالک سے سستا ہے۔ بظاہر یہ انڈیکس مہنگائی کے شور شرابے کے خلاف حکومت کا دفاع کرتا نظر آتا ہے، مگر دیکھنا یہ ہے کہ اس انڈیکس کی اہمیت ایک پاکستانی شہری کے لیے کیا ہے۔ مذکورہ انڈیکس پر دوسرا سوال اس کی صداقت کا ہے۔ کیونکہ ’’نمبیو‘‘ ایک آزاد ڈیٹا بیس ہے جس میں کوئی بھی اندراج کرسکتا ہے؛ چنانچہ اس کی حیثیت مصدقہ نہیں مانی جاتی۔ مگر قطع نظر اس کے، یہ دیکھنا اہم ہے کہ کاسٹ آف لونگ یا رہائش کی لاگت کا یہ انڈیکس کیا مہنگائی کی عمومی صورت حال کو بھی واضح کرسکتا ہے؟ نیز اس انڈیکس پر امریکہ یا صف اول کے دیگر ممالک کے ساتھ پاکستان کا تقابل پاکستانی شہریوں کے نقطۂ نظر سے درست ہے؟ مہنگائی کا تعین کیسے ہونا چاہیے؟ اس کا واضح جواب ہے افراد کی قوتِ خرید کے تناظر میں۔ اگر امریکہ میں اشیا کی قیمت پاکستان سے زیادہ ہے تو اس کا تقابل پاکستان میں اشیا کی قیمتوں کے ساتھ کرکے پاکستان کو امریکہ سے سستا ملک ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ بیشک دونوں جگہ قیمتوں میں واضح فرق ہے مگر عوام کی آمدنی اور قوتِ خرید میں اس سے زیادہ فرق ہے جسے نظرانداز کرتے ہوئے کوئی تقابل صرف مغالطہ پیدا کرسکتا ہے۔ پاکستان میں اشیا کی قیمتوں کا تقابل پاکستان کے مساوی معیشتوں ہی سے کیا جائے گا تو درست ہوگا۔ جبکہ کاسٹ آف لونگ انڈیکس میں یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ ممالک جو زیادہ خوشحال ہیں وہ اس فہرست میں بلند سطح پر ہیں۔ مثلاً وزیرخارجہ کے شیئر کردہ انڈیکس میں جاپان اگر بارہویں نمبر پر دکھا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں لیا جاسکتا کہ پاکستان جاپان سے گیارہ گنا سستا ملک ہے۔ اگر ایسا ہے بھی تو یہ ایک پاکستانی شہری کے لیے کسی طرح فائدے کا باعث نہیں کیونکہ جاپان کے شہری کی فی گھنٹہ اجرت پاکستانی شہری کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے۔ اسی طرح وہ ممالک جو اس انڈیکس میں پاکستان سے نیچے ہیں، پاکستانی شہری کی نظر میں بے شک وہ پاکستان سے سستے ہیں مگر ان ممالک کے شہریوں نے تو اپنے معاشی حالات اور قوتِ خرید کے مدنظر اسے دیکھنا ہے۔ چنانچہ اس انڈیکس سے مہنگائی کے مسائل کی اذیت کم نہیں ہوتی نہ حکومتی معاشی کارکردگی ثابت ہوتی ہے۔ اس سے صرف ایک ابہام پیدا ہوتا ہے اور سادہ لوح پاکستانیوں کو مہنگائی کی شدت کو کم کرکے پیش کیا جاسکتا ہے مگر حقیقی طور پر نہیں، محض دکھاوے کے لیے۔ عوام کو چیزیں سستی ہونے کا احساس صرف اسی صورت میںہوگا جب ان کی قوتِ خرید میں اضافہ ہوگا؛ چنانچہ حکومت کو اس نکتے پر توجہ دینے اور اس مقصد کے لیے توانائیاں صرف کرنے کی ضرورت ہے۔ غیرمصدقہ تنظیموں کے اعداد و شمار کے بجائے مصدقہ اداروں کی رپورٹوں کے ذریعے عوام کے علم میں اضافہ کیا جائے اور ان کے مسائل کو کم کرنے کے لیے ٹھوس اور مؤثر اقدامات یقینی بنائے جائیں۔ حکومت اس وقت چوتھے سال میں ہے، اصولی طور پر انتخابی دعووں کا قابل ذکر حصہ اس وقت تک مکمل ہوجانا چاہیے تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو عوام کی حالت پر اس کے اثرات
واضح طور پر محسوس ہورہے ہوتے، مگر صورتحال اس کے برعکس ہے۔ حکومتی اداروں کے اپنے اعداد و شمار اشیا کی قیمتوں میں غیرمعمولی اضافہ ظاہر کررہے ہیں جبکہ آمدنی میں اس دوران اضافے کے امکانات پیدا نہیں ہوئے۔ جہاں تک بیروزگاری کا تعلق ہے تو معاشی امور کے ایک تحقیقی ادارے کی حال ہی میں شائع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 31 فیصد تعلیم یافتہ نوجوان بیروزگار ہیں۔ یاد رہے ملکی آبادی کا 60 فیصد کے لگ بھگ نوجوان آبادی پر مشتمل ہے۔ یہ صورت حال روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کی ضرورت کو واضح کرتی ہے تاکہ بیروزگاری میں کمی آئے اور عوامی قوتِ خرید میں اضافہ ہو۔ صنعتوں کا
فروغ اس سلسلے میں پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ 30 سال کی عمر کے شہری ملکی آبادی کی غالب اکثریت ہیں جنہیں روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے لیے صنعتی سرگرمیوں میں اضافے کے سوا کوئی چارہ نہیں مگر پاکستان کا صنعتی ترقی کی جانب سفر سست روی کا شکار رہا ہے جس سے نہ صرف نئے روزگار کے مواقع پیدا ہونے میں مشکلات پیش آرہی ہیں بلکہ برآمدات میں بھی کوئی بڑا اضافہ نہیں ہو پارہا۔ ملکی برآمدات کا حجم پچھلی قریب ایک دہائی سے تقریباً ایک سطح پر برقرار ہے۔ یہ جمود توڑنے کی ضرورت ہے اور پاکستان باآسانی یہ کرسکتا ہے کیونکہ افرادی قوت اور دیگر وسائل دستیاب ہیں۔ پاکستان کو صرف حکومتی سطح پر ارادوں کی رکاوٹ کا سامنا ہے، مگر یہ مدنظر رکھنا چاہیے کہ اس مسابقتی دنیا میں مواقع بہت دیر تک کسی کے انتظار میں کھڑے نہیں رہتے۔ جن مواقع کا رخ اور رجحان اس وقت پاکستان کی جانب ہے اگر ان سے استفادہ کرنے میں روایتی آلکسی کا رویہ ترک نہ کیا گیا تو ان سے محروم ہونا پڑ سکتا ہے لیکن 60 فیصد نوجوان، پڑھی لکھی آبادی کے لیے یہ ایک بڑا المیہ ہوگا اور بیروزگاری کے مسائل سماجی اور معاشی مسائل کو دوچند کریں گے۔ ہمارے سماج میں ان مسائل کی ابتدائی صورتیں سر اُٹھارہی ہیں۔ جرائم کی دنیا پڑھے لکھے بیروزگار نوجوانوں کے لیے پھندا لگائے ہوئے ہے۔ اس مرحلے پر حکومت کو بغیر کوئی موقع ضائع کیے اقدامات کی ضرورت ہے۔
قا رئین کرام، اگر اوپر پیش کیئے گئے اعدا وشما ر کے گو رکھ دھند ے سے ہٹ کر عملی سطح یا عوا می سطح پر مہنگا ئی کا جا ئز ہ لیا جا ئے تو اس کے لیئے عوام کی آمدن اور قوتِ خرید کا موا زنہ کیا جا ئے تو صاف نظر آ ئے گا کہ عوام کی قوتِ خر ید روز بر وز جواب دیئے جا رہی ہے۔اور یو ں یہ وہ حقیقت ہے جس کی بناء پا کستان کو کسی طور بھی سستے مما لک میں شا مل نہیں کیا جا سکتا۔ ایک سوا ل تو یہ پو چھا جا سکتا ہے کہ اٹھا رہ ہز ار روپے کمانے والا خا ندا ن دو سو روپے کلو ٹما ٹر خر ید نا افو رڈ کر سکتا ہے؟ چنا نچہ جس ملک کاایک عا م شہری اپنی ہنڈ یا کے لیئے ٹما ٹر نہ خر ید سکے تو اس ملک کو سستا گردا ننا اپنی عقل پہ سوال اٹھا نے وا لی با ت ہو گی۔