جب سے مغربی دنیا میں خاندانی نظام منہدم ہوا ہے، اولڈ ہومز آباد ہوئے ہیں، تب سے اقوام متحدہ کی چھتری تلے عالمی ایام کو منانے کی روایت کا آغاز ہوا ہے، جس میں ہاتھ دھونے سے لے کر والدین کے ایام تک اس میں شامل ہے، ایسے ایام کو منانے کے لئے کوئی پیرا میٹرز تو نہیں دئیے گئے ،اس لئے تمام ممالک کے عوام اپنے کلچر روایات، تہذیب کے مطابق اس کو مناتے ہیں،اسکی مناسبت سے سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر تقاریب کا انعقاد ہوتا ہے، زیادہ تر پروگرامات غیر سرکاری تنظیموں کے زیر اہتمام منعقد ہوتے ہیں، جن ایام کا تعلق صحت، تعلیم، صنعت وحرفت سے ہوتا ہے،وہ متعلقہ محکمہ جات کی وساطت سے منائے جاتے ہیں، جس کا مقصد عوامی سطح پر آگاہی دینا بھی ہوتا ہے۔
ان ایام میں ایک دن خواتین کے حقوق کا بھی ہے، عالمی سطح پر اس دن کا منانے کا مقصد ان ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کرنا ہے جو گلوبل ولیج کے اس عہد میں بھی خواتین کے ساتھ روا رکھی جارہی ہیں،فی زمانہ بھی بہت سے معاشرے ایسے ہیں جہاں خواتین کا استحصال کیا جارہا ہے ،انکی جان ،مال عزت تک محفوظ نہیں، انھیں مشینی زندگی کا سامنا ہے، روزی کمانے سے لے کر بچوں کے پالنے تک کا بوجھ محض عورت کو اٹھانا پڑرہا ہے، جہاں خاندانی نظام سرے سے موجود ہی نہیں وہاں اسکی مشکلات میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے،دن بھر کی مشقت کے بعد ایسی عورت کو اپنے خاوند کی محبت میسر ہے، نہ ماں ،باپ کا پیار اسکی قسمت میں ہے، نہ بھائی، بہن کی شفقت اس کا مقدر ہے، ضرورریات زندگی پوری کرنے کے لئے یہ مشینی پرزہ بننے پر مجبور ہے، انکی دل جوئی کے لئے خواتین کا دن منا کر ان طبقات کو متوجہ کیا جاتا ہے، جو کسی نہ کسی طرح اس صنف نازک پر ظلم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ان میں وہ بد قسمت مغربی عورت بھی شامل ہے جوکلب کی زینت بنتی، سیکس ورکرز کے طور پر کام کرتی،پیپر میرج کے نام پر شہریت کے آررزو مند افراد کے لئے سہولت کار کا فریضہ انجام دیتی ہے،جبراورر گھٹن کے ماحول سے تنگ اس ذات نے عالمی دن کے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے’’ میرا جسم میری مرضی‘‘ کا نعرہ بلند کیا، اس توانا آواز کا مقصد اپنی مرضی اور منشا سے زندگی گذارنے کی آزادی طلب کرنا تھا، یہ سلوگن حق تولید، زنا کاری،جنسی کاروبار کے خلاف بلند ہوا، چند طبقات جو مغربی تہذیب کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں، انھوں نے اسکو’’ امپورٹ‘‘ کر کے عورتوں کے مارچ میں جب لگایا تو ہمارے سماج کے سنجیدہ حلقے دم بخود رہ گئے۔
مشرقی عورت کو جو مسائل درپیش ہیں وہ مغربی عورت کی مشکلات سے یکسر مختلف ہیں، انکا تعلق ،سماجی ناانصافی، معاشی تفاوت، جہالت او ر لا علمی سے ہے، عورت کا استحصال ہمیشہ طاقتور طبقات کرتے رہے ہیں، جو حکومت کا حصہ ہوتے ہیں، ہمارے ملک میں بھی روشن خیال سیاسی جماعتوں سے وابستہ افراد کی بہت سی کہانیاں تاریخ کا حصہ ہیں، گرلز کالج سے گورنر ہائوسز تک طالبات پہنچانے کا فریضہ ہرکارے انجام دیتے تھے،، کراچی کی طاقتور مگراز خود جلا وطن شخصیت سے وابستہ سکینڈل تو اخبارات میں شائع ہوتے رہے، خواتین کے تحفظ مارچ میں ایسی سیاسی جماعتوں پر پابندی کا مطالبہ کب سامنے آئے گا؟جن کے ہاتھ خواتین کی عصمت دری سے رنگین ہیں۔
ہمارے معاشرہ میں خواتین کیساتھ نانصافی کی داستانیں اگر ملتی ہیں تو اسکے ڈانڈے جاگیر دار ،سرمایہ دارقماش کے افراد سے ملتے ہیں، کیا اس مارچ میں منتظمین، شرکاء کی طرف سے کبھی یہ مطالبہ سامنے آیا کہ ایسے بااثر افراد کا داخلہ پارلیمنٹ میں بند کیا جائے،جو آئین کی 62,63 کی شق پر پورا نہیں اترتے؟ کسی بھی خاتون کا پہلا بنیادی حق یہ ہے کہ اسے اپنی تہذیب ،کلچر ،روایات کے مطابق تعلیم حاصل کرنے، علاج کرانے، قانونی مدد لینے، کاوبار کرنے کی وہ فضا دستیاب ہو، جہاں وہ اپنی بات کو بغیر کسی خوف، اجنبیت سے متعلقہ شرکاء کے سامنے رکھ سکے، کیا عورت مارچ کے منتظمین کی طرف سے یہ کہا گیا کہ خواتین کے تعلیمی ادارے الگ بنائے جائیں، پولیس سٹیشن، عدالتیں، دفاتر،کاروباری چیمبرز بھی الگ ہوں، تاکہ زیادہ سے زیادی خواتین کو سماج میں ملازمت کے حصول اور کلیدی کردار ادا کرنے کے وسیع مواقع میسرآسکیں۔
ابھی کل ہی کی بات ہے چانڈ کا میڈیکل کالج سندھ میں طالبات کی موت کو خود کشی قرار دینے، خواتین کو ہراساں کرنے کے معاملات سوشل میڈیامیںزیر گردش اور عدالت میں زیر سماعت ہیں، ایک طالبہ نے لبرل مزاج کی حامل عوامی جماعت کے سربراہ سے مخاطب ہو کر کہا کہ میڈیکل کالج میں لڑکیاں خود کشی نہیں کرتیں، انکی عصمت دری کے بعد انھیں موت کو گلے لگانے پر مجبور کیا جاتا ہے، سندھ حکومت اور تحفظ مارچ شرکاء کے سامنے بڑا سوال ہے۔ ایسے اداروں میں اگرمردوں کی مداخلت نہ ہونے کے برابر ہوتی، خواتین کا الگ میڈیکل کالج ہوتا، تو کیا اس طرح کا سانحہ والدین اور طالبات کا مقدر ہوتا؟ جس عورت کے سامنے بھوک سے بلکتے بچے ہوں، غربت اسکے پائوں کی زنجیر ہو اس کو عفت اور پاکدامنی کے معنی سمجھائے جاسکتے ہیں؟ ہمارے سماج میںخواتین کے مسائل وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم سے عبارت ہیں، ایسی خواتین کے سامنے اپنے موزے خود تلاش کرنے، کھانا خود گرم کرنے کا نعرہ کیا معنی رکھتا ہے؟تاہم ایسی خواتین منتظر ہیں کہ کب تحفظ مارچ کے شرکاء معاشی ناانصافی پر بات کریں گی۔
عورت مارچ کی روح رواں جس معاشرہ کو پدرشاہی کا سماج جانتی ہیں،اسی میں عورت خود کو مرد کی نگرانی میں زیادہ محفوظ سمجھتی ہیں، بہن اپنے بھائی کیساتھ جانے اس سے خدمت لینے اعزاز اور فخر مانتی ہے،بیوی اپنے شوہرکو اپنے اور بچوں کے لئے سائبان تصور کرتی ہے، ماں کی عظمت اور خدمت تو بڑی سعادت ہے ،باپ اپنی بیٹی کو شہزادی سمجھتا ہے، بھائی بہن کی عزت اور ناموس کی خاطر حد سے گذر جاتا ہے، پھر وہ کونسی عورت ہے جس کا غم عورت مارچ کے منتظمین کو کھائے جارہاہے، اگر انھیں خاتون کے تحفظ کے لئے آواز اٹھانی ہے، تو ان عورتوں کے لئے بلند کریں، جو خاندان کے ہمراہ جاگیرداروں، وڈیروں، سرداروں کے ڈیرہ جات پر بے بسی کی زندگی بسر کر رہی ہیں جن خواتین کو معاشی مجبوری کے سبب اشتہارات میں بازار کی زینت بنایا جاتا ہے۔ وفاقی مذہبی وزیرکا سرکارسے اس مارچ میں اسلامی شعائر،معاشرتی اقدار پردہ ،حجاب کا تمسخر نہ اڑانے کی اجازت دینے اور 8 مارچ کو بین الاقوامی ’’یوم حیا‘‘ منانے کا مطالبہ درست ہے،انٹرنیشل ویمن یونین کی صدر ڈاکٹرسمیحہ راحیل قاضی جن کا شمار پاکستان کی50 طاقتور خواتین میں ہوتا ہے، وہ حضرت خدیجہؓ کو مسلم خواتین کے لئے ماڈل قرار دیتی ہیں، بڑے وقار کے ساتھ بلا امتیاز مظلوم خواتین کے حق میں پوری دنیا میں وہ اپنی آواز بلند کر رہی ہیں۔ عورت کے تحفظ کا فریضہ عملاً انجام دے رہی ہیں۔ وہ کردار کی غازی ہیں۔
مغرب میں بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا، کشمیری اور فلسطینی، افغانی خواتین کے تحٖفظ کی بات عورت مارچ میں کیوں نہیں کی جاتی، ان خواتین کی مظلومیت کے پیچھے بڑی طاقتوںکا ہاتھ ہے جب تلک عورت مارچ کی منتظمین تعصب کی عینک لگا کر خرافات پر مبنی نعرے لگائیں گی، انھیں پذیرائی نہیں ملے گی، عورت مارچ میں ماحول پراگندہ کرنا عورت کی کونسی خدمت ہے؟
خواتین کے عالمی دن کے موقع پرمارچ کا اس انداز میں انعقاد کیا محرکات رکھتا ہے ،جس کی مخالفت تمام مکاتب فکر کرتے ہیں۔