اسلام آباد: سپریم کورٹ پاکستان نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر رائے محفوظ کرلی جسے صدر مملکت کو ارسال کیا جائے گا۔
عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل اور دیگر فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر رائے محفوظ کی جبکہ الیکشن کمیشن کے وکیل شاہ جیل سواتی نے کہا کہ 28 تاریخ تک رائے دے دیں تاکہ انتخابی عمل مکمل کیا جاسکے۔
یہاں یہ واضح رہے کہ ایوان بالا یعنی سینیٹ کے انتخابات 3 مارچ کو ہونے ہیں اور انہیں انتخابات کو اوپن بیلٹ سے کرانے کے لیے صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ سے رائے مانگی تھی۔
چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کی، اس دوران اٹارنی جنرل برائے پاکستان خالد جاوید خان، الیکشن کمیشن کے وکیل، پاکستان بار کونسل کے وکیل اور کیس میں فریق وکلا پیش ہوئے۔
واضح رہے کہ اس 5 رکنی بینچ میں چیف جسٹس گلزار احمد کے ساتھ ساتھ جسٹس مشیر عالم، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس یحییٰ آفریدی بھی شامل ہیں۔
صدر کی جانب سے عدالت عظمیٰ کو بھیجے گئے ریفرنس پر پہلی سماعت 4 جنوری 2021 کو ہوئی تھی، جس کے بعد رواں ماہ سے اس پر روازانہ کی بنیاد پر سماعت جاری تھی.
آج ہونے والی سماعت کے آغاز پر پاکستان بار کونسل کے وکیل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ الیکشن قوانین، ووٹ کو خفیہ رکھنے اور متناسب نمائندگی پر اپنے دلائل دوں گا۔
انہوں نے کہا کہ اراکین قومی اسمبلی کا الیکشن براہ راست اور سینیٹ کا الیکشن متناسب نمائندگی کے ذریعے مکمل ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کہا کہ کرپٹ پریکٹس کے خلاف اقدامات انتحابات سے پہلے ہونے چاہیے، اگر اس دلیل کو مان لیا جائے تو آئین کا آرٹیکل 218 بے سود ہو جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ کرپٹ پریکٹس کے الزام کو شواہد کے ذریعے علیحدہ کرنا ہوتا ہے، کرپٹ پریکٹس کے الزامات کو بیلٹ پیپر کے ساتھ منسلک نہیں کیا جاسکتا۔
اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اصل مقصد تو کرپٹ پریکٹس کو ختم کرنا ہے، بیلٹ پیپر بذات خود ایک ثبوت ہے، اگر رقم اور بیلٹ پیپر کا تعلق سامنے آئے تو الیکشن کمیشن کو چیک رکھنا چاہیے۔
دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آرٹیکل 51 کے تحت مخصوص نشستوں کے انتخابات خفیہ کیسے ہوتے ہیں؟ مخصوص نشستوں کا کوٹہ اسمبلی میں سیاسی جماعتوں کی نشستوں کے تناسب سے ملتا ہے۔
اس پر وکیل پاکستان بار کونسل نے کہا کہ مخصوص نشستوں کے لیے الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں سے فہرست پہلے ہی لیتا ہے، متناسب نمائندگی کے ذریعے مخصوص نشستوں پر دیے گئے ناموں کی اسکروٹنی (جانچ پڑتال) ہوتی ہے، اسکروٹنی کے بعد مخصوص نشستوں پر منتخب ارکان کے نام پبلک کردیے جاتے ہیں۔
اس دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کیا آپ کہنا چاہتے ہیں کہ آرٹیکل 226 کے تحت تمام الیکشن منعقد کیے جاتے ہیں، جس پر وکیل نے کہا کہ درحقیقت الیکشن کا مطلب ہی سیکریٹ بیلٹ ہے، اگر سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ سے کیا گیا تو اس کا اثر تمام انتخابات پر ہوگا۔ان کی بات پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت کے سامنے سوال صرف آرٹیکل 226 کے نفاذ کا ہے۔