سانحہ سقوط ڈھاکہ درحقیقت ہوس اقتدار کا نتیجہ تھا۔ جس میں اقتدار کے بھوکے غلاموں نے انتہائی شرمناک طریقے سے اپنا اپنا حصہ ڈالااور پھر بعد میں اقتدار کے مزے بھی لوٹے۔ تمام تر تحقیق کے بعد راقم اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ سقوط ڈھاکہ ایک طے شدہ منصوبہ تھا، جس کی الیکشن سے قبل ہی منصوبہ بندی کر لی گئی تھی۔ الیکشن تو صرف ایک بہانہ تھا، مملکت اسلامیہ پاکستان نشانہ تھا اور مسند اقتدار ٹھکانہ تھا۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ نے اپنے زرخرید غلاموں کے ذریعے انہی خطوط پر آج ایک دفعہ پھر یہی گھناؤنا کھیل شروع کر رکھا ہے۔ فرق صرف اہداف کے حصول میں ہے۔ یعنی پہلے منصوبے کا ہدف مملکت اسلامیہ کو دولخت کرنا تھا جس میں عالمی اسٹیبلشمنٹ کامیاب ہوئی۔ اب مملکت اسلامیہ کو سیاسی و معاشی عدم استحکام کا شکار کر کے بھوک وننگ کی بنیاد پر خانہ جنگی شروع کرا کر عسکری طور پر کمزور کرنا ہے۔تاکہ دجالی سلطنت کے قیام میں سب سے بڑی رکاوٹ کو مفلوج کیا جا سکے، بدقسمتی سے جس میں دشمن ابھی تک کسی حد تک کامیاب جا رہا ہے۔
یہ سوال انتہائی اہمیت کا احامل ہے کہ ابھی تک حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کو کیوں چھپایا جا رہا ہے؟ وہ کون سے خفیہ طاقتور ہاتھ ہیں جو اس کے شائع ہونے میں ابھی تک رکاوٹ ہیں؟۔ جب تک حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ مکمل طور پر پبلک نہیں ہو گی، اس وقت تک سقوط ڈھاکہ کے اصل مجرم بے نقاب نہیں ہوں گے۔ اس سے کیا مطلب اخذ کیا جائے؟۔ کیا حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کو چھپا کر کہیں ان مجرموں اور ان کی آل کو محفوظ راستہ تو نہیں دیا جا رہا؟۔ یعنی وہ آستین کے سانپ اور منافقین آج بھی ہماری صفوں میں موجود ہیں اور یہی ملک خداداد کا المیہ ہے۔
جس طرح ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کے قیام کے لیے مسلح دہشت گرد گروہ ”ہگانہ Haganah“کو کھڑا کیا گیا تھا۔ بالکل اسی طرز پر بھارت نے مملکت اسلامیہ پاکستان کو دولخت کرنے کے لیے مسلح دہشت گرد گروہ ”مکتی باہنی“ تشکیل دیا تھا۔ کلمہ طیبہ کی بنیاد پر معرض وجود میں آنے والی مملکت اسلامیہ پاکستان کے خلاف بھارت کی جانب سے شروع کی گئی دہشت گردی کی تاریخ تو اسی وقت شروع ہو گئی تھی جب پہلی مرتبہ ملک پاکستان بنانے کا اعلان ہو ا تھا۔ لیکن یہاں پر ہم اختصار کے ساتھ دہشت گردی کے تین بڑے واقعات کا سرسری ذکر کریں گے۔ اکتوبر 1947 کو سرینگر میں ہنومان فوجیں اتار کر پہلی دہشت گردی کا ارتکاب کیا گیا۔ دوسری دہشت گردی 1965میں رات کے اندھیرے میں چوروں کی طرح حملہ کر کے کی گئی، جو بعد میں ایک بڑی جنگ کی شکل اختیار کر گئی۔ انتہا پسند ذہنیت کے مالک بھارت نے اس پر بس نہیں کیا بلکہ 1971 میں دہشت گرد گروہ مکتی باہنی کے ذریعے سابق مشرقی پاکستان کو خون مسلم سے رنگین کر دیا۔ مملکت اسلامیہ پاکستان کی تاریخ میں ازلی دشمنوں کی جانب سے یہ بدترین Hybrid War تھی۔ اور پھر اس وقت سے لیکر آج تک بھارت اپنے آقاؤں کی آشیر باد سے دہشت گردی کرتا چلا آ رہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ سیاسی تقلید کی حامل یہ قوم دشمن کے اس انتہائی گھناؤنے کھیل کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ جب کہ کرپٹ اشرافیہ دولت، طاقت اور اقتدار کی ہوس میں اندھی ہو کر اپنے اصلی فرائض منصبی سے راہ فرار حاصل کر چکی ہے۔ان پرآشوب حالات میں کیا مملکت اسلامیہ میں کوئی بھی ایسا بطل جری نہیں ہے جو بھارتی مشرک ہندوؤں سے ان تمام دہشت گردیوں کا حساب لے۔