(سید کوثر عباس کاظمی )
پارلیمنٹ سے مراد اسلام آباد ڈی چوک میں واقع ایک وسیع و عریض بلڈنگ ہے۔ پاکستان سے مراد کیا وہ رقبہ ہے جو ایک حدود کے اندر آتا ہے؟ نہیں پارلیمنٹ سے وہ ایوان ہے جہاں عوامی نمائندے عوام کے مسائل کا پرچار کرتے ہیں۔ جہاں ہمارے منتخب کنندگان قانون سازی کرتے ہیں جو ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں ہو اور ملک سے مراد زمین کا وہ مخصوص ٹکڑا ہے جہاں ایک قوم آباد ہو۔انسانی وجود کے بنا زمین کا کوئی مخصوص حصہ کسی خاص اہمیت کا حامل نہیں ہوتا۔جب پارلیمنٹ کے وقار کی بات کی جاتی ہے تو اس سے مراد ان لوگوں کا وقار ہوتا ہے جو اس عمارت کے اندر بیٹھتے ہیں۔ بالکل اسی فارمولے کے تحت جب اگر پارلیمنٹ کی کمزوری کی بات ہو گی تو اس سے مراد اس عمارت کی کمزوری نہیں کہ سیمنٹ پتھر میں کوئی کمی رہ گئی بلکہ ان عوامی نمائندوں کی کمزوری کی بات ہو گی جو آئین پاکستان کے تحت اس اعلی و ارفع ایوان کے اندر بیٹھتے ہیں۔ اس کمزوری سے مراد اس قانون کی کمزوری ہو گی جو یہ سب نمائندے مل کر بناتے ہیں۔کیا آپ نے کبھی سوچا کہ ریاست کے سب سے مضبوط ایوان میں ہونے والے فیصلے نافذ کیوں نہیں ہو پاتے یا یوں کہہ لیں کے ملک کا سب سے مضبوط ادارہ یعنی پارلیمنٹ اپنے فیصلوں کا وقار برقرار کیوں نہیں رکھ پاتا؟
ایک ریاست تین ستون پر کھڑی ہوتی ہے۔ ریاست کے توازن کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ یہ تینوں ستون برابر کے مضبوط ہوں اور تینوں اپنی اپنی جگہ اپنی تعین کردہ ذمہ داریاں نبھائیں- پالیمنٹ عدلیہ اور انتظامیہ۔ مسلہء تب پیدا ہوتا ہے جب ان تینوں میں سے ایک ستون زیادہ مظبوط ہو جاتا ہے۔اتنا مضبوط کے باقیوں کی کمزوری واضح ہونے لگتی ہے پھر یہی ستون اپنی جگہ سے نکل کر دوسرے ستون کی جگہ لینے کی سعی میں لگ جاتا ہے۔ گو کہ کسی بھی منطق سے ایسا ممکن نہیں لیکن یہ بھونڈی کوشش عمارت یعنی ریاست کے توازن میں خلل پیدا کرتی ہے اور یہ خلل ریاست یعنی اسکے اندر رہنے والے افراد کو متاثر کرتا ہے۔ عموما یہ کہا جاتا ہے کہ عوام ریاست کا چوتھا ستون ہیں مگر میں اس تھیوری کا منکر ہوں۔ میرے نزدیک ریاست عوام ہی کا دوسرا نام ہے یعنی ریاست ایک زمین کا ٹکڑا نہیں بلکہ اس کے اندر بسنے والے لوگ ہیں۔ جب انسانوں کے بغیر زمین کا وہ ٹکڑا ریاست نہیں کہلا سکتا تو عوام یعنی انسانوں کو ریاست ہی کا چوتھا ستون کہنا مافوق العقل ہے۔
اگر آپ ان تین ریاستی ستونوں کی تشکیل پر غور کریں تو کمزور ستون نشاندہی اور کمزوری کے اسباب واضح نظر آنے لگتے ہیں۔ عدلیہ کی بات کریں۔ عدلیہ ریاست کا ایک آزاد ادارہ ہے جو پروفیشنل افراد پر مشتمل ہوتا ہے۔ ایک جج جو کہ عدلیہ کا اہم رکن ہوتا ہے ۔کیسے جج بنتا ہے؟ اسکی قابلیت کیا ہوتی ہے اور وہ جدوجہد جو اسے اس مقام تک پہنچاتی ہے۔
قارئین! عدلیہ کی اکائی یعنی جج ایک قانون دان ہوتا ہے جس نے وکالت کی ڈگری حاصل کر رکھی ہوتی ہے۔ اسکے بعد بھی تعلیم کا سلسلہ رکتا نہیں ہے۔عملی میدان میں بھی وہ سرگرم رہتا ہے۔ پھر جج بننے کے لئیے متعین مخصوس امتحان جو کہ امیدواروں کی تمام تر صلاحیتوں کی چھان بین کر کے معیاری اصولوں پر جانچ کر اسے پاس ڈیکلئیر کرتا ہے۔ یوں ایک جج تعلیمی، عملی اور تجرباتی سفر طے کر کے عدلیہ کا حصہ بنتا ہے۔ یعنی عدلیہ بطور ادارہ اس شخص کو اپنا کارکن تصور کرتا ہے جو مخصوص شرائط پر پورا اترتا اور اعلی صلاحیتوں کا مالک ہو۔
انتظامیہ کی بطور ادارہ بات کریں تو یہ وزیر اعظم کے ماتحت کام کرنے والا ادارہ ہے ۔اس کی تشکیل کا معائنہ کیجئے۔ پاکستان کا مشکل ترین مقابلے کا امتحان جسمیں ہزاروں امیدوار سالانہ حصہ لیتے ہیں اور کامیاب امیدوار تین سو کا ہندسہ عبور نہیں کر پاتے ۔پھر ان تین سو میں سے بھی دیگر صلاحیتوں کا ٹیسٹ لینے کے بعد بلآخر سول سروسز کا حصہ بننے والے افراد گنے چنے ہوتے ہیں ۔انتظامی ادارے قابلیت کی انتہا اپنے لئیے منتخب کرتے۔ یوں ریاست کا یہ ستون مضبوطی حاصل کرتا ہے۔ اب بات کریں ریاست کے سب سے اہم ستون پارلیمنٹ کی۔اسکی تشکیل اور اسکے ممبران کی قابلیت کو پرکھیں ۔اس ایوان کا حصہ بننے کے لئیے تعلیم کی شرط کیا ہے؟ کچھ نہیں ۔آمر جنرل مشرف نے شہرت بی اے طے کی تھی جسے ان نابغہ ذہنوں نے ختم کر دیا۔ وہ کونسا ایسا امتحان ہے جسے پاس کرنے کے بعد عوامی نمائندہ ہونے کا حق محفوظ ہو جاتا ہے؟ کوئی نہیں ۔یعنی ملک کا سب سے بڑا ادارہ یہ تقاضا کرتا ہے کہ آپ بظاہر انسان دکھتے ہوں اور زندہ ہوں۔
اپنے علاقے کے لیڈران پر غور کریں ۔جو آپ نے منتخب کر کے ایوانوں میں بھیجیں ہیں کیا وہ اس قابل ہیں کہ قانون سازی کر سکیں؟ پھر ایسے افراد کے مجموعے سے ایوان بنتا ہے۔ قابلیت ہی وہ معیار ہے جو اداروں کو پروفیشنل کرتا ہے۔
کتوں کی لڑائی اور بندروں کے میلے کی صدارت لائق افراد کو جب پارلیمنٹ جیسے اہم ادارے کا حصہ بنایا جائے گا تو پھر وہی ہو گا جسکا عملی مظاہرہ آپ نے چند ماہ قبل بجٹ سیشن میں دیکھا.