سعودی عرب کو امت میں مرکزی حیثیت حاصل ہونے کا سبب وہ مقامات مقدسہ ہیں، جن کی زیارت کا قصد کرنا ہر مسلم کے ایمان کا حصہ ہے،حج جیسے مذہبی فریضہ کے لئے رخت سفر باندھنا خوش نصیبی شمار کیا جاتا ہے،اس دوران ادب، احترام، تعظیم کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، آواز کو مدہم رکھنے کے ساتھ ساتھ قدم بھی آہستہ آہستہ اُٹھائے جاتے ہیں، اس عقیدت کی وجہ حکم ربانی ہی نہیں اسلامی روایت بھی ہے۔
جب بھی کوئی غیر معمولی بات اِن مقامات یا ارض مقدس کے بارے میں سامنے آتی ہے تو ہر مومن متوجہ ہو جاتا ہے، منفی خبر کی صورت میں تو پورے عالم اسلام میں اضطراب پھیل جاتا ہے اُمت کی جذباتی وابستگی اس سرزمین سے ہے جس کو وہ اپنے ایمان کا حصہ خیال کرتے ہیں۔
سعودی عرب کی خارجہ پالیسی ہو یا اسکے معاشی ،سماجی معاملات ہوں، غیر ارادی طور پر ہر مسلم اس میں دلچسپی رکھتا ہے، اسکے فرمانروا سے محبت بھی انھیں مقامات مقدسہ کی وجہ سے رکھی جاتی ہے، انھیں خادمین حرمین شریف کا لقب بھی اس لئے عطا ہوا ہے، کہ عمرہ، اور حج کے موقع پر ہر امتی کی خدمت کا فریضہ بجا لانے کو وہ اپنی سعادت سمجھتے ہیں، یہ ذمہ داری سعود خاندان نے از خود اپنے سر لی ہے، حج ہی وہ اجتماعی عبادت ہے جس میں بلا امتیاز رنگ ونسل، ریاست ہر مومن شریک ہوتا ہے، کہا جاتا ہے کہ بہت سے غیر مسلم اس عبادت کو دیکھ کر ہی ایمان لے آئے کہ مساوات کی اس سے بہتر دنیا میں اور کوئی مثال نہیں ہے۔
مقامات مقدسہ کے حوالہ سے اہل مغرب میں بڑا تجسس پایا جاتا ہے، اسلامی دنیا کی ان سے محبت اور اس اعتبار سے اتحاد اِنکی آنکھوں میں کھٹکتا ہے، قبلہ اول کی آزادی کے بارے امت میں پائے جانے والے جذبات سے بھی وہ بخوبی آگاہ ہیں، عرب اسرائیل جنگ تاریخ کا حصہ ہے، راویت ہے کہ فروری1945 میں امریکی صدر روز ویلٹ کی مصر میں ایک بحری جہاز میںابن سعود سے ملاقات ہوئی، بادشاہ نے اس ملاقات میںفلسطین کے مسئلہ کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کیا، دوہفتوں کے بعد کانگریس کو اپنی رپورٹ میں امریکی صدر نے اعتراف کیا کہ اس نے شاہ سعود سے ملاقات میں مسئلہ فلسطین کو ان پانچ منٹوں میں اچھے انداز میں سمجھا ہے، جسے وہ دو تین درجن خطوط کے ذریعہ بھی نہیں سمجھ سکتا تھا۔
1964 اور 1976 کے مابین اسلامی دنیا کو نئے چیلنجوں کا سامنا تھا تو شاہ فیصل مرحوم نے بڑی طاقتوں کی پروا کے بغیر اسلامی مفاد ،اتحاد اور یک جہتی کے لئے کھل کر حمایت کی اور اسرائیل کے خلاف اپنی پالیسیوں کو مزید واضح کیا۔
سعودی فرمانروا نے اپنے آبا کی روایا ت سے منحر ف ہوتے ہوئے عرب اسرائیل پالیسی کی بابت یکسر یو ٹرن لے لیا ہے،امُت مسلمہ کے جذبات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ دست شفقت بڑھا دیا ہے۔اس سے یہ اخذ کرنا مشکل نہیں قبلہ اول کی آزادی کی بنیاد پر جو اختلاف تھا اس کو پس پشت ڈال کر اسرائیل سے سفارتی تعلقات بھی قائم کر لئے۔ اس کے اثرات اسلامی دنیا پر کیا مرتب ہوں گے،فلسطینی عوام اِسکو کس نظر سے دیکھتی ہے یہ ایک الگ موضوع ہے۔ کہا جاریا ہے کہ جمال خاشقجی صحافی کی ناگہانی موت کے بعد سعودی ارباب اختیار خود کودبائو سے باہر نکالنے کے لئے ایسی غیر اسلامی خرافات معاشرہ میں متعارف کرا رہے ہیں تاکہ مغرب اور اس کے حواریوں کی آشیر آباد حاصل کی جاسکے۔
سعودیہ کا روشن چہرہ دنیا کے سامنے رکھنے کے لئے میوزیکل کنسرٹ منعقد کئے گئے ہیں، جن میں ہندوستان اور مغرب سے فنکاروں اور اداکاروں کو بطور خاص مدعو کیا گیا تھا،علاوہ ازیں ایک نیا شہر بسانے کی بھی باز گشت سنائی دے رہی ہے، شنید ہے کہ اس مقام پر سعودی قوانین کا نفاذ نہ ہو سکے گا، طائوس رباب کی محافل، شراب و کباب جیسی سرگرمیاں یہاں کا معمول ہوں گی، یہ مجوزہ شہر دنیا کا مہنگا ترین شہر ہو گا، جس میں ہر طرح کی عیاشی کی سہولت میسر ہوگی ،یہ منصوبہ ولی عہد کا وژن 2030 قرار دیا جا رہا ہے، بعض علمی حلقوں میں یہ افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں، کہ موجودہ بادشاہ سلامت مکہ اور مدینہ شہر کو ٹورسٹ شہر قرار دینے کے لئے بے تاب ہیں، بالفاظ دیگر ان مقدس مقامات میں غیر مسلم بھی تفریح کی غرض سے داخل ہو سکیں گے، اس سے قبل یہ ممنوعہ علاقے تھے۔
سعودی حکام کا خیال ہے کہ مستقبل میں تیل کا استعمال بتدریج کم ہو جائے گا، جبکہ سعودی معیشت کا انحصار صرف تیل پر ہی ہے، لہٰذا لازم ہے کہ متبادل ذرائع تلاش کئے جائیں، نئی روشن خیال پالیسی معیشت کے فروغ کی جانب ایک قدم ہے، ایک رائے یہ بھی ہے کہ ولی عہد سستی شہرت کے حصول کے لئے روشن خیالی اَپنا رہے ہیں، جو کسی طرح بھی عرب روایات سے مطابقت نہیں رکھتی، نہ ہی اسلامی دنیا اسکو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے، اس کا آغاز خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دینے سے ہوا تھا، اسکی آڑ میں اب وہ تمام حدیں پار کی جارہی ہیں، جن کا اس سرزمیں پر تصور بھی محال تھا۔
نبیؐ آخرزمان جن خرافات کے خاتمے کے لئے اپنی حیات مبارکہ میں جدوجہد کرتے رہے، اِسی دیس میں پھر سے انکا احیا کیا جارہا ہے، غیر ملکی میڈیا تو یہاں تک تنقید کر رہا ہے کہ صحابہ کی اولادیں آج میوزیکل کنسرٹ میں شریک ہیں، جس میں کلمہ والا جھنڈا بھی لہرایا جارہا ہے، ہزاروں کی تعداد میںسعودی عوام کی شرکت کو روشن خیال معاشرہ سے تعبیر کیا جارہا ہے۔
سعودی فرمانروا بڑی طاقتوں کی خوشنودی کے لئے اس حد تک جائیں گے یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا،کیا اسلامی تاریخ اتنی بانجھ ہے کہ اس پر کسی ثقافتی کلچر کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی، ابھی حال ہی میں ترک ٹی وی ڈراموں نے مسلم معاشروں میں غیر معمولی مقبولیت حاصل کی اوربلین ڈالرز کا کاروبار کیا ہے ۔
سعودی حکام سماج سے قدامت پسندی کے خاتمہ کے آرزو مند ہیں تو انھیں اسلامی کلچر، روایات سے وہ سنہری اَدوار دنیا کے سامنے رکھنے چاہئیں تھے جن پر عمل پیرا ہو کر پورا عالم امن کا گہوارہ قرار پایا تھا،یہ ساری تاریخ انکے ارد گرد بکھری پڑی ہے، وہ مسلم حکمران تاریخ میں آج بھی زندہ ہیں جنہوں نے اُس وقت کی سپر پاورز کوشکست فاش دی اپنی تہذیب کو متعارف کرایااور ایسا عادلانہ نظام دیا جسکو بہت سے ممالک نے اپنایا لیکن اپنی معیشت کی مضبوطی کے لئے بے ہودہ کلچر کے فروغ کا سہارا نہیں لیا تھا۔
اُس وقت بھی دنیا کی غالب آبادی غیر مسلم ہے، سعودی عرب کی حیثیت امت کے امام کی سی ہے، جس کے فرائض منصبی میں ایسی پالیسیاں بنانا ہے جن سے غیر مسلم متاثر ہو کر دائرہ اسلام میں داخل ہوں، لیکن ارباب اختیار نے تو تبلیغی جماعت ہی پر پابندی عائد کر دی ہے، غیر اخلاقی اقدار کو پروان چڑھا کر کونسی اسلامی خدمت انجام دی جارہی ہے، کس منہ سے ا سلامی کلچر، شاندار روایات کا تذکرہ اب ممکن ہو گا ، امت کے مذہبی طبقات، سیاست دانوں، دانشوروں، میڈیا کی مذکورہ خرافات پر معنی خیز خاموشی ان اقدامات کی تقویت اور ترویج کا باعث بن رہی ہے۔ جبکہ ولی عہدکو اپنے دامن پر روشن خیالی کے لگے داغ کو دھونے میں وقت درکارہوگا۔