یقین انسانی معاشرت کی اساس ہے۔ اسی کی بنیاد پر سماجی رشتے، تعلقات، کاروبار حیات حتیٰ کہ نظریات اور مکتبہ فکر کھڑے ہیں۔ یقین نہ ہو تو کوئی بھی معاملہ، کوئی بھی بات محض جگالی ٔ وقت، لمحوں حتیٰ کہ الفاظ کا زیاں ہے۔ دنیا کے مختلف مذاہب، ادیان، عمرانی نظریات، سماجی رویے، معاشرت کی روایات دو باتوں پر متفق ہیں اور اس تفریق کو ملانے سے ہر لحاظ سے انکاری ہیں وہ ہیں نیکی اور بدی، سچ اور جھوٹ۔ ان دونوں کے فرق پر سب متفق ہیں اور ایک یقین کے ساتھ! انسانیت کے مروجہ و مسلمہ اصول، ادیان کے تسلسل اور وحی ٔ خداوندی کا ارتقائی مسافت طے کرتے ہوئے دین اسلام پر منتج ہونا جس سے انکار کرنے والے کسی اور راستہ سے کسی اور نام سے مکتبہ فکر کی بنیاد رکھ کر بالآخر اسی منزل تک پہنچتے ہیں۔ باقی افکار کی دکانیں ہیں، شعور کے بازار ہیں جو صدیوں سے 24 گھنٹے کھلے رہتے ہیں اور کھلے رہیں گے۔ بقا اور ثبات خالق کے پیغام پر یقین رکھنے والوں کو ہی نصیب ہو گی یہی یقین نفس مطمئنہ کی تکمیل و منزل ہے۔
بدھ جو بنیادی طور پر انسانیت کے پیرو تھے اور پرچاری ہیں، ان کے خیال میں مذہب تفریق کرتا ہے۔ یہی ان کا نظریہ ان کا مذہب بن گیا اور بدھست کہلانے لگے۔ Non believer بھی ایک اصطلاح ہی تو ہے ورنہ نہ جانے ان کا حقیقی belief اور believe قانون و دین فطرت کے طے کردہ اصولوں سے کتنا میل کھاتا ہو کہ مذہب کا کاروبار کرنے والے خود اس مذہب کے افکار کے اتنے عامل نہ ہوں جتنا ایک Non believer یعنی ملحد قانون قدرت کا پیرو ہو۔ پھر اللہ کے وحی کردہ ادیان و مذاہب کے پیرو تو یہودی، نصرانی، مسلمان اور ہزاروں سال کی تاریخ میں کیا کیا کہلائے جاتے ہیں مگر اساس یقین ہے۔
دین اور روحانی حوالے سے یقین ایک خیال، ایک سوچ، اور گہرا غور کایا پلٹ ثابت ہوا کرتا ہے۔ ہمارے اسلاف اور انسانوں کے لامتناہی سلسلہ میں اس کی ان گنت مثالیں ہیں اتنی کہ سوچ، فکر اور غور نے پوری پوری قوم اور امت کی صورت اختیار کر لی۔
اللہ، اس کے فرشتوں، الہامی کتابوں، انبیاء اور پیغمبر پر یقین ایمان کے لازمی اجزا ہیں۔ ہر اچھی اور بُری تقدیر کا مالک اللہ کو ماننا اور آخرت پر یقین!!! اب ذرا غور فرمائیے، اللہ تعالیٰ کے ہر اچھی اور بُری تقدیر کا مالک ہونے پر یقین ہے تو پھر سود و زیاں کا شادیانہ اور سوز بے معنی ہے۔ اگر آخرت پر یقین ہے تو پھر کس کی مجال ہے کہ کوئی ایسا فعل کر جائے جس کے replay کا متحمل نہ ہو۔ مگر ہمارے ہاں بدنصیبی ہے، اچھی اور بُری تقدیر کا مالک اللہ کا ہونا اور آخرت کا یقین عملی
زندگی میں اعمال پر اثر انداز کم کم ہی دیکھا گیا۔ ہم قبرستانوں سے گزرتے ہیں، جنازے پڑھتے ہیں، اپنے پیارے سپرد خدا کرتے ہیں، روح و بدن جدا ہوتے دیکھتے ہیں۔ یہ یقین نہیں آتا کہ ایک دن ہم پہ بھی یہ لمحہ گزر چکا ہو گا ورنہ یہ چالاکیاں، عیاریاں، مکاریاں، دھوکا دہیاں، زیادتیاں، طاقت کا استعمال، کمزور ماری، انسان دشمنی، جاندار دشمنی تو دور کی بات سرکار کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو دل آزاری کو کعبہ گرانے سے بڑا گناہ قرار دیا (مفہوم)۔ اور ہم پہنچ کر پوری جانفشانی اور تمام ذرائع و اختیارات بروئے کار لاتے ہوئے دل آزاری کو بطور مشغلہ اپنائے ہوئے ہیں۔ جب کہ جن کا ہمارے علماء کے مطابق جنت میں داخلہ ممنوع ہے انہوں نے ساری دنیا کو ’’تھینک یو‘‘ اور ’’سوری‘‘ سکھا دیا۔ مگر یہ ہماری شان اور انا کے خلاف ہے۔ ارواح کے شہر جن کو ہم قبرستان کہتے ہیں، داخل ہوتے ہی اسلام علیکم یا اہل القبور کا کچھ تو مقصد ہو گا؟ کوئی تو جواب ہو گا!!! کوئی ایک سوچ، کوئی ایک خیال صاحب کشف شخص کی زندگی کا رُخ موڑ دیا کرتا ہے اور اس مڑتے ہوئے رُخ کے پیچھے انسانیت کی خدمت انسان دوستی کے کرشمے ہی کارفرما ہوتے ہیں۔ یہ سارے خیالات اور سوالات میرے ذہن میں اس لیے آئے کہ اگلے دن، اللہ کریم سلامتی اور عافیت میں رکھے، میرے بڑے بھائی جناب گلزار احمد بٹ (سپرنٹنڈنٹ جیل) سے ایسے موضوعات پر بات ہوئی۔ انہوں نے خود احتسابی، مراقبہ Meditation اور انسان کی اپنی ذات سے ملاقات کے لیے وقت نکالنے پر بہت سی نادر باتیں کیں بلکہ خود اپنے لیے کہنے لگے کہ اگلے روز کسی ملبوسات کی دکان پر کپڑے ٹرائی کرنے ٹرائی روم میں گئے کچھ وقت لگ گیا اور ٹرائی روم کی تنہائی شہر ارواح کی تنہائی سے میل کھانے لگی، خیالات کا پنچھی کہاں سے کہاں لے گیا کہ لاکھوں ہزاروں سال اور صدیوں سے لوگ قبروں میں پڑے ہیں۔ کئی قبریں ہیں مگر روح تو کہیں نہ کہیں موجود اور تنہا ہو سکتی ہے۔ یہ تنہائی زندگی انسان کی دوست ہونی چاہئے کچھ لمحے تنہا سوچ کہ میں نے کیا کسی کے ساتھ زیادتی تو نہیں کی۔ میرا مقصد کیا ہے اس مقصد حیات کے لیے میری کوشش کیا ہے؟ آخرت کی تعمیر کے لیے کل کی تعمیر کے لیے میں نے آج کیا کیا؟ میرا ذکر لوگ کیسے کرتے ہیں، یقینا یہ اللہ کے لیے بہت اہم ہے کہ انسان کا ذکر اس کی مخلوق کن الفاظ اور احساسات سے کرتی ہے۔
کیا لوگ مطمئن ہو سکتے ہیں جو میرا ظاہر اطمینان دیتا ہے کیا میرا باطن بھی مطمئن ہے۔ اگر وہ مطمئن ہے تو میرا خالق بھی مطمئن ہے۔ بہت سی باتیں ہوئیں جو کالم کی طوالت کے باعث نہیں لکھی جا سکتیں۔ گلزار بھائی باتیں کر رہے تھے میرا خیال سیاست پر لکھنے کا تھا مگر میں نے آج خود احتسابی اور مخلوقات سے محبت کے ان خیالات کو سپرد قرطاس کیا اور نہ جانے مجھے مرزا عبدالقادر بیدلؒ کیوں یاد آ گئے۔ جن کی شاعری کا سادہ ترجمہ ہے ’’ تو بادشاہوں کی مدح گوئی کرتا ہے تو سمجھ لے کہ شیطان تیرا معلم ہے جو کچھ تجھے سکھاتا ہے وہی کچھ تو کہتا ہے، یہ شیطانی علم کیا ہے؟ حُبِ جاہ ہے۔ تیرا استاد اور پیشوا شیطان ہے، ابدی روسیاہی کے سوا تجھے اور کیا ملے گا تو اتنی بات پر فخر کرتا ہے کہ بادشاہ کا درباری شاعر ہوں یہ تو سمجھ کہ بادشاہ خود کیا بلا ہے۔ ایک تخت و تاج ہی تو ہے، اور دونوں پتھر۔ ایک سر پر پڑا، دوسرا پاؤں کے نیچے تخت بن گیا۔ چاندی کا تخت اور سونے کا تاج جمادات ہی تو ہیں۔ ان دو پتھروں کی رگڑ سے آگ پیدا ہوتی ہے، اس کا نام ہے بادشاہ، لیکن ہر ایک اگنی کا پجاری اس حقیقت سے آگاہ نہیں، یہ آگ تیرے دین پر بجلی بن کر گرتی ہے اور تیرے خرمن ایمان کو جلا کر راکھ کرتی ہے، اگر تو بادشاہ کا مقرب ہے تو بلاشبہ تو آتش پرست کافر ہے، تیرا دین ایمان گیا، آتش پرست کبھی حق پرست نہیں ہو سکتا۔‘‘
مجھے خیال آیا اپنے ملک کے حاکموں پر، ان کے ترجمانوں، مشیروں، وزیروں پر جو ہو گزرے وہ بھی جو تیار ہیں وہ بھی مگر جیسا قحط الحیا و حرمت اب ہے ایسا پہلے کبھی نہ دیکھا۔ جیسے ڈالروں میں اربوں کی کرپشن سے کم کی بات نہیں سنی اور نہ ہی کسی کو اس سے کم الزام لگاتے سنا۔ جتنی خوشامد وزیر، مشیر اور بیوروکریٹ اپنے سے اعلیٰ عہدوں کی کرتے ہیں اللہ کی کریں تو ولیوں میں مقام پائیں۔ ’’مگر دنیا ڈھونڈنے والے در در پھرن حیرانی‘‘۔
حکمرانوں اور حکمران طبقوں نے سچ کو ڈکشنری سے خارج کر دیا جھوٹ کی سموگ اور فوگ آگ اور دھواں کچھ اس قدر اڑایا کہ صورتیں حقیقتیں گم ہو گئیں۔ منافقت، جھوٹ، بے انصافی، ظلمت، الزام تراشی، دشنام طرازی، ڈھٹائی، بے کسی، بے بسی، ذلتوں کی یہ دھول جب بیٹھے تو ایسا نہ ہو کہ سارے مناظر ہی بدل چکے ہوں۔ ہم 2021 کے بجائے خواہ 2100 میں نہ بس رہے ہوں۔ بہرحال بات سیاست کی طرف نکل گئی۔ یقین سے بات چلی تھی اگر آخرت اللہ تعالیٰ کے ہر اچھی بُری تقدیر کے مالک ہونے اور اپنے آپ پر یقین ہے تو پھر کوئی غم نہیں دنیا کا غم ہو یا خوشی جیسے نیند آنے تک ہے۔ اسی طرح بے اطمینانی یقین کے پختہ ہونے سے اطمینان میں بدل جایا کرتی ہے اور نفس مطمئنہ کی منزل مقدر بن جایا کرتی ہے۔ خود احتسابی، مراقبہ، خود سے ملاقات اور اللہ کی مخلوق سے معاملات دراصل اللہ سے معاملات ہیں، اس کا یقین!!!