پنجاب کو 74برس پہلے لے جائیں تو 1947ء سامنے آتا ہے۔ اُن دنوں آل انڈیا مسلم لیگ پنجاب کی صوبائی حکومت کے خلاف عدم تعاون کی تحریک چلا رہی تھی۔ وجہ یہ تھی کہ 1946ء کے انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ نے پنجاب کی صوبائی نشستوں میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرکے اپنے آپ کو اکثریتی جماعت ثابت کیا تھا لیکن نتائج کے برخلاف پنجاب کے انگریز گورنر نے یونینسٹ خضر حیات ٹوانہ کی سربراہی میں کانگریس، یونینسٹ اور سکھوں کی مشترکہ حکومت بنوا دی تھی۔ آل انڈیا مسلم لیگ نے یہ غیرجمہوری فیصلہ تسلیم نہ کیا اور سڑکوں پر آگئی۔ حکومت وقت نے جلسوں جلوسوں پر پابندی لگادی، پبلک سیفٹی آرڈیننس کے ذریعے گرفتاریاں شروع کردیں اور مسلم نیشنل گارڈ پر پابندی لگا دی۔ اس صورتحال پر مسلم لیگی رہنما نواب افتخار حسین خان ممدوٹ نے قائداعظمؒ محمد علی جناح سے رہنمائی چاہی۔ قائداعظمؒ نے ایک خط کے ذریعے پنجاب کے مسلم لیگی رہنمائوں کو گائیڈ لائن دی۔ یہ خط حکومت پاکستان کے پاس ’’جناح پیپرز‘‘ کی صورت میں محفوظ ہے۔ اُس نادر خط کے کچھ اہم حصے (اردو ترجمہ) درج ذیل ہیں۔ ’’اولڈ گورنمنٹ ہائوس، کراچی۔ 23فروری 1947ء۔ ڈیئر ممدوٹ! مولانا دائود غزنوی نے آپ کا 22 فروری 1947ء کا خط اور ٹائپ شدہ جواب کا مسودہ جو آپ گورنر پنجاب کو بھیجنا چاہتے ہیں مع حکومت پنجاب کی تجاویز کے مجھ تک پہنچایا ہے۔ آرڈیننس کو اسمبلی میں پیش نہ کرنا تسلیم شدہ اصولوں کے منافی اور آئینی روایات اور جمہوریت کے خلاف ہے۔ ہندوستان کے ہر صوبے میں اس قسم کے آرڈیننس کو اولین موقع ملنے پر متعلقہ مقننہ کے سامنے پیش کردیا گیا ہے۔ بنگا ل میں مسلم لیگ کی وزارت اور مدراس میں کانگریس کی وزارت نے اسی روایت پر عمل کیا ہے اور سندھ میں بھی یہی کچھ ہوا ہے۔ چونکہ اُس وقت اسمبلی کا اجلاس نہیں ہورہا تھا اس لیے پبلک سیفٹی آرڈیننس کو خصوصی اختیارات کے تحت بطور ہنگامی ضابطے کے نافذ کیا گیا تھا اور یہ حکومت کا فرض بنتا ہے کہ اسمبلی کے اولین اجلاس میں اسے پیش کرے تاکہ اسمبلی یہ فیصلہ کرسکے کہ آیا یہ آرڈیننس یا اس آرڈیننس کی کوئی شق حالات سے نمٹنے کے لیے اب بھی ضروری ہے اور اگر ہے تو کس حد تک تاکہ اس کے مطابق قانون وضع کرسکے۔ یہ بات فرض کرلی گئی
تھی کہ کوئی بھی ذمہ دار جمہوری حکومت آرڈیننس کے مندرجات پنجاب اسمبلی کے اولین اجلاس میں پیش کرے گی اور اُس وقت آل انڈیا مسلم لیگ کی مجلس عاملہ درج ذیل معاملات پر متفکر تھی اور اس نے مطالبہ کیا تھا کہ (الف) حکومت پنجاب سیاسی سرگرمیوں پر لگائے گئے سارے امتناعی ضابطے فوراً واپس لے اور عام جلسوں اور جلوسوں پر سے پابندی اٹھالے۔ (ب) پنجاب پبلک سیفٹی آرڈیننس کے تحت دیئے گئے خاص اختیارات کو بے جا طور پر استعمال نہ کرے۔ (ج) اُن تمام افراد کو جو اس سلسلے میں گرفتار، قید یا حوالات میں ہیں غیرمشروط طور پر رہا کردے۔ میرا اندازہ ہے کہ آپ نے مصالحت کے لیے جلوسوں کے سوال پر ان کی بات مان لی ہے۔ لہٰذا عام جلسوں پر پابندی، پنجاب اسمبلی کے آئندہ اجلاس میں آرڈیننس کی پیشی اور گرفتار شدہ حوالاتیوں اور سزا یافتہ افراد کی رہائی کے معاملات باقی رہتے ہیں۔ حکومت پنجاب جلسوں پر سے پابندی اٹھانے کے لیے تیار ہے اور مذکورہ بالا افراد کی رہائی پر بھی رضامند ہے مگر پنجاب پبلک سیفٹی آرڈیننس کو اسمبلی کے آئندہ اجلاس میں پیش کرنے سے گریز کررہی ہے۔ اس کا یہ موقف آئینی نظائر کے منافی ہے جس پر دوسرے صوبوں میں عمل درآمد ہوچکا ہے جس کا ذکر میں پہلے کرچکا ہوں۔ یہ ایک بہت اہم اصولی مسئلہ ہے اور میں کبھی آپ کو مشورہ نہیں دوں گا کہ آپ اس سے دست بردار ہو جائیں۔ آپ نے اور پنجاب کے سرکردہ رہنمائوں نے اس تحریک کا آغاز کیا تھا اور میرے خیال میں بجاطور پر کیا تھا کیونکہ حالات ناقابل برداشت ہوتے جارہے تھے۔ خاص طور پر جبکہ مسلم نیشنل گارڈز کو غیرقانونی قرار دیا گیا تو ہمارا پیمانہ صبر لبریز ہوچکا تھا اور میں تو یہ کہوں گا کہ صورتحال کا جس جرأت اور ثابت قدمی سے آپ لوگوں نے مقابلہ کیا اور تحریک کو جس شاندار طریقے سے جاری رکھا اس کے علاوہ اور کوئی چارہ کار بھی نہیں تھا۔ پنجاب کی قیادت پر نہ صرف مجھے فخر ہے بلکہ سارا مسلم ہندوستان آپ کے ساتھ ہے۔ پوری دنیا آپ کو قدرو منزلت اور ہمدردی کی نظروں سے دیکھ رہی ہے اور حکومت پنجاب کی پالیسی اور اقدامات کی مذمت کررہی ہے۔ آپ کا موقف جائز ہے۔ کسی فیصلے پر پہنچنے کے لیے یہ ایک بڑی آزمائش کا لمحہ ہے۔ میں واضح کرچکا ہوں کہ تحریک آپ نے شروع کی تھی اور اسے شاندار طریقے سے جاری رکھا ہے۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ ایک ایسا سمجھوتہ کریں جو نہ صرف پنجاب کے مسلمانوں بلکہ آل انڈیا مسلم لیگ کے لیے بھی باعث عزت اور موجب افتخار ہو۔ مجھے امید ہے کہ یہ فیصلہ متفقہ رائے سے ہی ہوگا۔ باعزت شکست اس شرمناک مصالحت سے بہتر ہے جو تسلیم شدہ آئینی اصولوں اور روایات اور جمہوری قاعدوں کے، جن کے لیے ہم جدوجہد کر رہے ہیں، منافی ہو۔ لہٰذا میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ آپ کے مطالبات مناسب اور جائز ہیں اور آپ نے جلوسوں پر پابندی کو تسلیم کرکے مصالحت کے جذبے کا اظہار کیا ہے مگر اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ پورے معاملے کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنا فیصلہ کریں جو حسب حال ہو۔ یہ ذمہ داری آپ کی ہے اور ہم نے شروع ہی میں یہ واضح کردیا تھا کہ یہ سمجھوتہ آپ کے اور حکومت پنجاب کے درمیان ہوگا جس کا فیصلہ آپ کی کمیٹی کرے گی۔ مجھے امید ہے کہ میں نے اپنے خیالات آپ پر واضح کردیئے ہیں۔ میں دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو کامیابی عطا فرمائے۔ ہمیں ثابت قدم اور پرعزم رہتے ہوئے نتائج کو قبول کرنا چاہئے مگر ایک مرتبہ مصیبتوں میں پھنس کر ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے کوئی ایسی مصالحت نہیں کرنی چاہئے جو باعث ذلت ہو۔ آپ کا مخلص، محمد علی جناح‘‘۔ پنجاب کے مذکورہ بالا حالات اور قائداعظمؒ کا خط تقریباً 74 سال پرانا ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ آئینی اور جمہوری حق کے لیے اُس وقت بھی پنجاب میں لوگ سڑکوں پر تھے۔ پنجاب حکومت کی طرف سے جلسوں اور جلوسوں پر پابندی لگائی جارہی تھی۔ لوگوں کا آئینی اور جمہوری حق دبانے کے لیے اُس وقت بھی پنجاب حکومت کی طرف سے گرفتاریاں کی جارہی تھیں۔ پنجاب حکومت آرڈیننس کے ذریعے کام چلا رہی تھی۔ پنجاب حکومت اپوزیشن کے آئینی اور جمہوری حق کو تسلیم نہیں کررہی تھی۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ 74 سال پرانے پنجاب اور آج کے پنجاب میں سیاسی اعتبار سے یہ مماثلت ہے کہ اُس وقت مسلم لیگ اپوزیشن میں تھی اور آج بھی ایک بڑی مسلم لیگ یعنی مسلم لیگ ن اپوزیشن میں ہے جبکہ ایک چھوٹی مسلم لیگ یعنی مسلم لیگ ق مصالحت کے نتیجے میں حکومت کی اتحادی ہے۔ اُس وقت کی حکومت پنجاب کے غیرآئینی رویئے پر قائداعظمؒ محمد علی جناح کا یہ خط اُس وقت بھی اہم تھا اور کیا اب بھی اہم نہیں ہے؟ تاہم اس خط کے ذریعے قائداعظمؒ کی سیاسی کارکنوں کو انمول نصیحت یہی تھی کہ ’’باعزت شکست اس شرمناک مصالحت سے بہتر ہے جو تسلیم شدہ آئینی اصولوں اور روایات اور جمہوری قاعدوں کے، جن کے لیے ہم جدوجہد کر رہے ہیں، منافی ہو‘‘۔