ڈنمارک کا قرآن پاک نذر آتش کرنے پر پابندی لگانے کا فیصلہ

ڈنمارک کا قرآن پاک نذر آتش کرنے پر پابندی لگانے کا فیصلہ
سورس: File

کوپن ہیگن: ڈنمارک کی حکومت نے کہا کہ وہ ایک ایسا قانون پیش کر رہی ہے جو ڈنمارک میں قرآن یا دیگر مذہبی کتابوں کو جلانے اور ان کی بے حرمتی کو غیر قانونی قرار دے گا۔

ڈنمارک کی حکومت نے کہا کہ ڈینش معاشرے میں اظہار رائے کی آزادی سب سے اہم اقدار میں سے ایک ہے لیکن  ڈنمارک کو ایک ایسے ملک کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو دوسرے ممالک کی ثقافتوں، مذاہب اور روایات کی توہین اور تذلیل کی سہولت فراہم کرتا ہے۔


وزیر انصاف پیٹر ہملگارڈ نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ حکومت قانون سازی کی تجویز کرے گی جو مذہبی کمیونٹی کے لیے ضروری مذہبی اہمیت کی حامل اشیاء کے نامناسب ہینڈلنگ پر پابندی لگائے گی۔ایسی حرکتیں کرنے والے کو جرمانہ یا دو سال تک قید کی سزا ہوسکتی ہے۔

ہملگارڈ نے کہا کہ اظہار رائے کی آزادی ڈنمارک کی جمہوریت کا سنگ بنیاد ہے، اور اپنے آپ کو اظہار خیال کرنے کی آزادی ڈینش معاشرے میں ایک مرکزی قدر ہے۔ مجوزہ قانون اظہار رائے کی آزادی کو متاثر نہیں کرے گا۔ 

وزیر خارجہ لارس لوکے راسموسن نے کہا کہ ملک میں مزہبی کتابوں کی بے حرمتی کے 170 سے زائد مظاہرے ہو چکے ہیں، جن میں سے کئی مسلم ممالک کے سفارت خانوں کے سامنے قرآن مجید کو نذر آتش کرنے کے واقعات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجوزہ تبدیلی ایک اہم سیاسی اشارہ ہے جسے ڈنمارک دنیا کو بھیجنا چاہتا ہے۔


انہوں نے مزید کہا کہ مذہبی تنقید کی گنجائش ہونی چاہیے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ  زبانی یا تحریری بیانات اور ڈرائنگ اس بل کے زمرے میں نہیں آئیں گے۔ 

وزارت انصاف نے کہا کہ یہ بل 1 ستمبر کو منظوری کے لیےقانون سازوں کے سامنے پیش کیا جائے گا۔

ڈنمارک اور سویڈن میں حالیہ ہفتوں میں احتجاجی مظاہرے دیکھنے میں آئے ہیں جہاں قرآن کے نسخوں کو نذر آتش کیا گیا ہے، یا کسی اور طرح سے نقصان پہنچایا گیا ہے۔

نورڈک ملک نے بھی حال ہی میں ایک بیان جاری کیا تھا کہ وہ اپوزیشن جماعتوں کی تنقید کا سامنا کرنے کے باوجود اپنے اپنے علاقوں میں قرآن جلانے کے احتجاج اور اجتماعات پر پابندی لگانے پر غور کر رہا ہے۔

یاد رہے کہ 2006 میں ڈنمارک مسلم دنیا میں بڑے غصے کے مرکز میں تھا جب ایک اخبار نے پیغمبر اسلام کے 12 کارٹون شائع کیے، جن میں ایک بم کو پگڑی کے طور پر پہنا ہوا تھا۔ یہ تصاویر دنیا بھر کے مسلمانوں کی طرف سے ڈنمارک مخالف پرتشدد مظاہروں میں بدل گئی تھیں۔

مصنف کے بارے میں