فوج سرحدوں کی نگہبان تو سیاستدان جمہوریت کے پاسبان ہیں ،علماءدین کے رکھوالے تو پولیس شہریوں کے جان مال اور آبرو کی محافظ ہے ، اگر چہ برطانوی دور میں محکمہ پولیس ٹیکس آبیانہ اور مالیانہ وغیرہ کی وصولی کیلئے قائم کیا گیا تھا ،بعد ازاں محسوس ہواکہ کوئی فورس ایسی بھی ہونی چاہئے جو شہریوں میں تحفظ کا احساس اجاگر کرے،دیکھا جائے تو پولیس کے کندھوں پر دہری ذمہ داری کا بوجھ ہے،ایک طرف اسے عوام کے جان مال آبرو کا تحفظ کرنا ہے تو دوسری جانب حکومتی رٹ کو قائم کرنا بھی اس کی ذمہ داری میں آتا ہے،امن و امان کا قیام،جرائم کی بیخ کنی،مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانا،ملزم پر عائد الزام کو ثابت کرنا،ظالم کو سزا دلوانا ہی نہیں مظلوم کو انصاف دلانا بھی پولیس کے فرائض منصبی کا لازمی جزو ہے۔
کیا ہمارا محکمہ پولیس ان آئینی فرائض کی کما حقہ ادائیگی کر رہا ہے یا گردش زمانہ کی نذرہو کر اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کا مرتکب ہو رہا ہے اگر ایسا ہے تو اس کی وجوہات کیا ہیں،اس حوالے سے سکول آف گورننس اینڈ سوسائٹی اور یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی کے زیر اہتمام ایک مذاکرہ کا انعقاد کیا گیا، اکثر شرکاءکا خیال تھا کہ پولیس میں سیاسی مداخلت، من پسند افسروں کی تعیناتی اور متروک پولیس ماڈل محکمے کے زوال کا باعث ہے،”جمہوری پولیس کا تصور:پاکستان میں کیسے اپنایا جائے؟“کے موضوع پراس مذاکرہ میں سیر حاصل بحث کی گئی، ڈاکٹر نوید الٰہی جو سکول آف گورننس اینڈ سوسائٹی کے روح رواں ہیں،وہ ایسے حساس موضوعات پر مباحث و مذاکرات کا اہتمام کرتے رہتے ہیں جو آج کے دور میں ایک قومی خدمت سے کم نہیں،وہ پولیس اور خفیہ ایجنسیوں میں ایک طویل عرصہ کلیدی عہدوں پر فائز رہے،آج کل تعلیم و تربیت کے لئے یہاں پروفیسر کی حیثیت سے خدمات سر انجام دے رہے ہیں،انہوں نے نظامت کے فرائض انجام دئیے،جبکہ میرے سمیت ، شوکت جاوید سابق آئی جی پولیس، سرمد سعید خان سابق آئی جی پولیس، کامران لاشاری سابق چیف سیکرٹری، ظفر کلانوری سینئرر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ، پروفیسر راحت العین، نعیم اسلم سابق ڈین نیشنل سکول آف پبلک پالیسی، ڈاکٹر سیمی وحید اور شاہد رحیم سابق ڈین نیشنل سکول آف پبلک پالیسی نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
شرکا ءنے بڑی مہارت سے موضوع کے حوالے سے گفتگو کی اور پاکستان میں پولیس کو جمہوری طریقے پہ چلانے اور عوام میں پولیس کا احترام بڑھانے کے بارے میں قیمتی آراءسے نوازا، تمام شرکا ءکا اتفاق تھا کہ پولیس کا سیاسی استعمال اور ان کی تعیناتی میں مداخلت خرابی کی اصل جڑ ہے، پولیس کو دہشت کے بجائے حفاظت کی علامت ہوناچاہئے مگر اس کیلئے تھانہ کلچر بدلنا ضروری ہے، پولیس افسروں کے خلاف سیاسی بنیادپر کارروائی بھی فورس میں بد دلی کا باعث ہے،پولیس افسروں اہلکاروں کو عزت،وقار اور تحفظ دینے کی بھی ضرورت ہے تاکہ وہ بھی عوام کو تحفظ اور عزت دیں،عام آدمی کی اعلیٰ افسر تک رسائی بھی یقینی ہونی چاہئے،کچھ شرکا ءکا کہنا تھا چونکہ سارا نظام ہی کرم خوردہ ہے تو ایسے میں اس محکمے سے بہترین کارکردگی کی توقع عبث ہے۔
معاشرہ کے کسی بھی طبقہ کی جانچ سے پہلے خود پر ایک نگاہ ڈالنا ضروری ہے،پولیس افسر اور اہلکار بھی ہم میں سے ہی ہیں،وہ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں جس میں ہر نوعیت کی خرابی اپنی آخری حد کو چھو رہی ہے،تو ان سے کیسے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اچھا رویہ اختیار کریں،اہم ترین بات ،جب ایسے معتبر،ذمہ دار اورحساس محکمہ سے منسلک ہونے کیلئے رشوت اور سفارش لازمی ہو جائے،تو اس کا مطلب یہ کہ ہم نے شروعات میں ہی کسی نہ کسی کا زر یا زور سے حق مارا ہے،اور جب حق مارنا جائز تصور کر لیا جائے تو بہت سی رکاوٹیں از خود راستہ چھوڑ دیتی ہیں،فلسفی نے کہا تھا”گناہ یا برائی اتنا بڑا فعل نہیں جتنا بڑا گناہ کو گناہ نہ سمجھنا ہے،اور آج ہم بحیثیت مجموعی گناہ کو گناہ نہیں حق سمجھتے ہیں،ایک ایسا معاشرہ جہاں ہر وہ برائی موجود ہو جس کے ارتکاب پر ماضی میں پوری قوموں کو عذاب آسمانی کے ذریعے نیست و نابود کر دیا گیا تھا اس میں پولیس والے ولی اللہ کیسے بن سکتے ہیں۔
تعیناتی اور تبادلہ میں سیاسی مداخلت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وزرائ،ارکان اسمبلی اور حکومتی جماعت کے رہنما پولیس افسروں کے ذریعے علاقہ میں اپنی دھاک بٹھاتے ہیں، ہمارے پنجاب کے ہوم منسٹر جب اس عہدے پر نہیں تھے تو پولیس ان کے دروازے توڑتی اور ہراساں کرتی نظر آئی ، مگر آج ان کو سیلیوٹ مارتی ہے ،سوچنے کی بات ہے انہیں اختیارات سے تجاوز پر مجبور کون کرتا ہے ،کسی بھی ان ہونی میں ان کو تعاون کی یقین دہانی کون کراتے ہیں اور انکار پر تبادلہ کرا دیتے ہیں،ایسے میں کون با اصول ہو گا جو مصیبت مول لے لہٰذا وہ بھی ادھر کو چل پڑتے ہیں جدھر کی ہواءہوتی ہے،اہل اقتدار پولیس افسر سے ایک غلط کام لیتا ہے تو دو غلط کام اپنے فائدہ کیلئے دھڑلے سے کر جاتا ہے،لہٰذا پولیس کو جمہوری سوچ کا حامل بنانے کیلئے ضروری ہے کہ جمہوریت کے دعویدار پہلے خود کو جمہوری ثابت کریں،جب پورا محکمہ ایک وزیر کی صوابدید پر ہو گا اس کی اپنی کمان بھی بعض معاملات میں بے بس ہو گی تو اسے جمہوری ادارہ کیونکر بنایا جا سکتاہے؟
تھانہ کلچر اگر چہ ملک کے طول و ارض میں وباءکی صورت اختیار کر چکا ہے مگر اس کے پیچھے بھی سیاسی ہاتھ کافرما ہے،جب اہل اقتدار کسی پولیس افسر کو کہتے ہیں کہ فلاں شخص کو اٹھا لو ایف آئی آر بھی نہ کاٹو اور کسی زندان میں ٹارچر کرو تو اس ٹارچر سیل کو مستقل عقوبت خانہ بننے سے کوئی نہیں روک سکتا،ملک میں عدالتیں ہیں جو ایسی صورت میں مداخلت کر سکتی ہیں،مگر عدالت کی کوئی تفتیشی ٹیم ہے نہ فیصلوں پر عملدرآمد کرانے کیلئے کوئی فورس،پولیس نے ہی مجرم پیش کرنا ہوتا ہے وہی چالان بناتی ہے اور وہی عدالتی احکامات پر عمل کراتی ہے اور جب کوئی زردار اور زور آور پیچھے ہو اور عدالتی حکم کے منافی حکم صادر کرے تو اس پولیس افسر کو کون سی عدالت انصاف دے گی،مگر کیا سارا قصور نظام کا ہے یا نظام چلانے والوں میں بھی قصور ہے اس حوالے سے بھی سوچ بچار کرنا ہوگی۔
بحیثیت شہری ہم اپنے رویے اور طرز زندگی کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا اس خرابی کے ہم بھی کسی حد تک ذمہ دار ہیں،قانون کا احترام قواعد کی پابندی اور ضابطے کے تحت زندگی گزارنا ہم نے سیکھا ہی نہیں،ہم دھڑلے سے قانون شکنی کرتے اور پھر اس بھی زیادہ دھڑلے سے رشوت کی پیشکش کر کے قانون سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں،اور الزام دیتے ہیں پولیس کو حالانکہ صورتحال کے ہم زیادہ ذمہ دار ہوتے ہیں،شہریوں کا قانون کا پابند نہ ہونا بھی اس محکمہ کی خرابی کی ایک وجہ ہے،صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے اصلاحات،کڑی قانون سازی،بےلاگ احتساب اور چیک اینڈ بیلینس بھی ضروری ہے۔