حکمرانوں کی تباہ کاریاں

 حکمرانوں کی تباہ کاریاں

پہلے میں نے آج کے کالم کا عنوان ” سیلاب کی تباہ کاریاں“ رکھا تھا۔ مگر ہمارے سیاسی واصلی حکمرانوں کی تباہ کاریاں سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں سے بہت زیادہ ہیں، سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں کا عرصہ مختصر ہوتا ہے، حکمرانوں کی نااہلیوں سے ہونے والی تباہ کاریوں کا عرصہ پچھتر برسوں پرمحیط ہے، ہمارے ان گنت، بدنیت اورکرپٹ حکمرانوں نے گزشتہ پچھتر برسوں سے اپنے ذاتی مفادات کو پرے کرکے قومی مفاد کو ترجیح دی ہوتی تو آج ملک اِس قدر تباہ کن صورت حال سے دوچار نہ ہوتا۔ جنت کا ایک ٹکڑا ”دوزخ“ بنا ہوا ہے، اور اگر یہ اب بھی جنت ہے تو صرف حکمرانوں کے لیے ہے جن کے پاپی پیٹ بھرنے کا نام نہیں لے رہے، سیاسی حکمران بے شمار کمزوریوں کا شکار ہوتے ہیں، مگر اصلی حکمرانوں کے پاس اندھی طاقت ہوتی ہے، اِس ملک پر زیادہ عرصہ حکومت بھی اصلی حکمرانوں کی رہی، کاش اپنی ”اندھی طاقت “کا کچھ استعمال انہوں نے قومی مفاد میں بھی کیا ہوتا، دوچار بڑے ڈیم ، خصوصاً کالا باغ ڈیم ہی بنادیا ہوتا آج ملک کئی حوالوں سے اِس قدر تباہی کا شکار نہ ہوتا، کس نے اُنہیں پوچھنا تھا؟مگرجو کام اُن کے کرنے کے تھے اُنہوں نے نہیں کئے، وہ زیادہ تر وہی کام کرتے رہے جو اُن کے کرنے کے نہیں تھے، صرف وہی نہیں عوام بھی اِس تباہی کے پورے حصہ دار ہیں، حکمرانوں کو اپنے ہونے کا کبھی اُنہوں نے احساس دلایا ہوتا آج بھیڑ بکریوں کی طرح اُنہیں ہانکا نہ جاتا، کیڑے مکوڑوں کی طرح اُنہیں پاﺅں تلے کُچلانہ جاتا، قیمے والے نانوں کے عارضی مزے کو اُنہوں نے ترجیح نہ دی ہوتی آج بھوک پیاس سے اُن کے بچے ایسے نہ مررہے ہوتے، دو دوچار چار سوروپے کے عوض اپنے شناختی کارڈ اُنہوں نے گروی نہ رکھوائے ہوتے، اپنے ووٹ نہ بیچے ہوتے آج اِس قدر اذیت کا شکار وہ نہ ہوتے، کل میں نے اپنے وزیر خارجہ جِن کے خاندان کی سندھ میں پچھلے کئی برسوں سے حکومت ہے بلاول بھٹو زرداری کو سندھ کے کسی علاقے میں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے ہمراہ سیلاب متاثرین کے ایک کیمپ کا دورہ کرتے دیکھا، صاف ظاہر ہورہا تھا وہ گونگلوﺅں سے مٹی جھاڑ رہے ہیں۔ سمجھ ہی نہیں آرہی تھی وہ لوگوں کا دُکھ بانٹنے آئے ہیں یا فوٹو سیشن کروانے آئے ہیں۔صِرف وہی نہیں ہمارے تقریباً سبھی حکمران مستحق لوگوں کی مدد اپنا فرض سمجھ کر نہیں محض فوٹو سیشن کے لیے کرتے ہیں، ایک محاورہ ہم نے سُن رکھا ہے ”نیکی کردریا میں ڈال“ ۔ہمارے دریا شاید اِس لیے بھی خشک ہوتے جارہے ہیں اب نیکیاں کرکے دریا میں ڈالنے والا کوئی نہیں رہا، یہ محاورہ اپنی قدرواہمیت مکمل طورپر اب کھوچکا ہے، اب نیکی کرکے دریا میں نہیں میڈیا اور سوشل میڈیا میں نہ ڈالی جائے نیکی کرنے والے اِس احساس بلکہ اِس یقین میں مبتلا ہو جاتے ہیں اُن کی نیکی ضائع ہوگئی ہے، ہمارے اکثر حکمران جب سیلاب زدگان سے مِلنے جاتے ہیں اتنا وہ سیلاب زدگان کی طرف نہیں دیکھتے جتنا کیمروں کی طرف دیکھ رہے ہوتے ہیں، بلوچستان سیلاب سے تقریباً تباہ ہوچکا ہے، سیلاب کے علاوہ بھی وہ کئی طرح کی تباہیوں اور محرومیوں کا شکار ہے، جتنے بلوچستان میں ذخائر ہیں، قدرتی وسائل سے جتنا یہ صوبہ مالا مال ہے، خُدا کی قسم اِس صوبے کو اِس ملک کو حقیقی معنوں میں نیک نیت حکمران اگر مِلے ہوتے، اِس صوبے پر ذاتی اعتراض سے بالاتر ہوکر توجہ دی گئی ہوتی اِس ملک کے سارے قرضے صِرف ایک اِس صوبے کی وجہ سے اُتر گئے ہوتے، حکمرانوں نے جان بوجھ کر اسے محرومیوں کا شکار رکھا، اب تک رکھا ہوا ہے، اب وہاں سیلاب سے جو تباہ کاریاں ہوئی ہیں ایسی ایسی خوفناک کہانیاں سننے کومِل رہی ہیں، ایسے ایسے خوفناک مناظردیکھنے کو مِل رہے ہیں، مجھے حضرت احسان دانش کا یہ شعر یاد آتا ہے، ”کچھ ایسے مناظر بھی گزرتے ہیں نظر سے .... جب سوچنا پڑتا ہے خُدا ہے کہ نہیں ہے“.... حکمرانوں کو مگر شرم نہیں آتی، اِن کے تو غیرملکی دورے ہی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے، بلوچستان، سندھ اور جنوبی پنجاب کے بے شمار علاقوں اور لوگوں کے جو بدترین حالات ہیں اُن کا بنیادی تقاضا یہ ہے حکمران اپنی تمام تر ضروری وغیر ضروری مصروفیات ترک کرکے اُن علاقوں میں قیام کریں اور اُس وقت تک کریں جب تک لوگوں کی محرومیوں اور دُکھوں کا مکمل طورپر ازالہ نہیں ہوجاتا، چند لمحات کے دورے کرکے، محض فوٹو سیشن کرواکے اگر وہ سمجھتے ہیں اپنی حکمرانی کا اُنہوں نے حق ادا کردیا ہے یہ اُن کی بھُول ہے .... فرمایا گیا ”دریا ئے فرات کے کنارے ایک کتا بھی اگر بھوکا مر گیا روز حشر اُس کا جواب دیناپڑے گا“ .... یہاں حالت یہ ہے انسان مرتے جارہے ہیں، جگہ جگہ لاشوں کے ڈھیرلگے ہیں، مٹی سے لِتھڑے ہوئے بچوں کے لاشے دیکھے نہیں جاتے۔ ایک کربلا اُن علاقوں میں برپا ہے، اتنی مٹی بچوں کی لاشوں سے چمٹی ہوئی ہے سمجھ نہیں آرہی یہ بچے قبروں سے باہر ہیں یا قبروں کے اندر ہیں، وزیراعظم شہباز شریف سے ہاتھ باندھ کر گزارش ہے، وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور اُن کے والدِ محترم آصف زرداری سے اشکوں بھری التجا ہے، وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی سے مو¿دبانہ گزارش ہے اپنی اور اپنے وزراءکی تمام مصروفیات ترک کرکے، اپنی سیاست پر چند روز کے لیے مٹی ڈال کر مکمل توجہ عملی طورپر سیلاب زدگان کی بحالی پر دیں، جب تک لوگوں کے دُکھوں کا ازالہ نہیں ہوجاتا متاثرہ علاقوں میں قیام کریں تاکہ دُکھ اور مصیبت کی اِس گھڑی میں لوگوں کو احساس ہو اُن کے حکمران صرف باتوں، نعروں اور اشتہاروں کی حدتک نہیں عملی طورپر اُن کے ساتھ کھڑے ہیںاور اُن کے درد کو اُسی طرح محسوس کرتے ہیں جِس طرح وہ درد کو محسوس کرتے ہیں، ....اُن کے علاوہ اِس ملک میں ”تبدیلی“ کا جو ٹھیکیدار بنا ہواہے، اُس کی خدمت میں بھی دست بدستہ عرض کرنا چاہتا ہوں آپ کی سیاست ہوتی رہے گی، کُرسی چھن جانے کے غم کو فی الحال خود سے الگ کردیں، اپنی ساری سیاسی، اخلاقی وغیر اخلاقی سرگرمیاں ترک کرکے فوری طورپر سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں جائیں، بے شک وہاں جاکر کوئی کام نہ کریں، لوگوں کو صِرف یہ بتانے چلے جائیں اُنہیں کیوں نکالا گیا تھا؟۔ شاید آپ کے وہاں جانے سے میڈیا کی کچھ توجہ بھی وہاں چلی جائے گی !! 

مصنف کے بارے میں