تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی تین روزہ حفاظتی ضمانت منظور کر لی ہے۔ان پہ یہ الزام ہے کہ ہفتے کی شام اسلام آباد میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے پولیس اور عدلیہ کو دھمکایا۔یہ واقعات ان دنوں قومی سیاسی منظر نامے پہ چھائے ہوئے ہیں۔میں یہاں رُک کر ایک بات یاد دلانا چاہوں گی چیئرمین تحریک انصاف جو اکثر اپنی تقاریر میں ریفرنس بھی دیا کرتے تھے ،سابقہ ادوار میں سیاسی جما عتوں کے سربراہان کو بھی جب اقتدار سے جدا کرتے رہے تو اُنہوں نے بھی اداروں پر تنقید کے نشتر چلائے اور ایسا ہوتا بھی رہا ،اس بات کو حوالہ پھر عمران خان اپنی تقاریر میں بھی دیتے رہے ۔
پوری قوم کو عمران خان سے یہ توقع نہیں تھی وہ خود تو یہی سبق قوم کو دیتے رہے کہ ہمیں بحیثیت قوم اداروں کا احترام کرنا چاہیے اور یہ بھی کہا کرتے تھے کہ امیر اور غریب کے لیے ایک سا قانون نہ ہو تو قومیں تباہ ہو جایا کرتی ہیں یہی نہیں بلکہ انہوں نے تو ایک سلوگن(نعرہ)بھی بنایا تھا کہ دو نہیں ایک پاکستان۔جہاں امیر اور غریب کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے ،ایک اہم بات ریاست مدینہ کا سبق بھی قوم کو دیا ،ریاست مدینہ کی اگر ہم بات کریں تو وہاں انصاف یکساں ہوتا رہا ،رعایا کو پورا حق حاصل تھا کہ وہ خلیفہ وقت سے پورے مجمع میں کسی بھی طرح کا سوال پوچھ سکے۔
عمران خان نے وہ باتیں جو قوم کو سکھائیں اور اپنی تقاریر میں بھی کہتے تھے کیا وہ واقعی ایسا ملک بنانا چاہتے تھے یا وہ سب صرف باتیں تھیں صرف اور صرف اقتدار کو پانے کے لیے؟اور اب ایک نیا سلوگن چل نکلا ”کیا ہم کوئی غلام ہیں“ یہ وہ باتیں ہیں جن پر غور کرنا ہر پاکستانی پر فرض کو ہے ۔
اقتدار پا لینے کے بعد جو ملک کا حال تین سالوں میں ہوا وہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں۔مزید اہم بات کہ اگر یہ دوسری جماعتوں کا میڈیا ٹرائل،منی ٹرائل،اور احتساب کا کہتے تھے تو خود عمران خان کو بھی کسی طرح اپنی ذات کو بالا تر نہیں سمجھنا چاہیے۔اس تمام سیاسی منظر نامے کو اگنور نہیں کرنا چاہیے جس کا اثر اس وقت صرف عوام پہ پڑ رہا ہے۔
اس وقت سب اپنی اپنی سیاسی جنگ لڑ رہے ہیں۔ جنوبی پنجاب،سندھ،اور بلوچستان کی سیلاب سے متاثرہ آبادی پر کیا بیت رہی ہے،یہ کسی کے لیے توجہ کا موضوع نہیں ،ہمارا میڈیا بھی اس پہ خاموش ہے ،ہمارے ہاں وہی موضوع زیر بحث ہوتا ہے جس کو ضروری سمجھا جاتا ہے۔یہ موضوع شاید ہمارے لیے ضروری نہیں۔ عمران خان صاحب آپ بھلے وزیر اعظم نہیں رہے مگر بات تو ریاست مدینہ کی ہی کرتے ہیں آپ ہی مرتے ہوئے لوگوں کے لیے مسیحا بن جائیے وزیراعلیٰ پنجاب تو اب بھی آپ کا ہی ہے آپ ہی اس طرف توجہ دے لیں یا چند الفاظ ہی ہمدردی کے کہہ ڈالیے۔
آج ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے !کیا انسان میں انسانیت ہے؟انسان سے اگر انسانیت کو جُدا کر دیا جائے تو وہ حیوانوں سے بھی خطرناک ہے کیونکہ احساس،جذبات جیسے عنصر تو انسانیت کے دم سے ہی ہوتے ہیں۔ایک یہ وقت ہے کہ زندہ انسانوں پہ بھی رحم نہیں کیا جا رہا ایک وقت تھا کہ جب خدا کے حساب سے لوگ اتنا خوفزدہ ہو جایا کرتے تھے کہ وہ حیوانوں کو بھی بھوکا نہیں دیکھ سکتے تھے۔
میں آج کی صورتحال اور سیلاب میں مرتے لوگوں کو دیکھ کر ایک واقعہ آپ کے گوش گزار کرنا چاہوں گی۔حضرت علی ؓ کے زمانہ خلافت میں کوفہ میں ایک شخص کا باغ تھا ایک روز وہاں ایک رئیس ابو احمد تفریح کے طور پر گئے دیکھا کہ غلام جو باغ کی حفاظت پر نوکر تھا روٹی کھا رہا ہے اور اُس کے سامنے ایک کتا بیٹھا ہے ایک لقمہ وہ کتے کو کھلاتا ہے اور ایک وہ خود کھاتا ہے اور اس بات کا بڑا لحاظ رکھتا ہے کہ لقمے چھوٹے بڑے نہ ہوں جب وہ کھانے سے فارغ ہوا تو ابو احمد اُس کے نزدیک گئے اور اُس غلام سے پوچھا کہ کیا تم نے کتے کو پال رکھا ہے اُس نے کہا نہیں،یہ اجنبی کتا ہے بھوک کے مارے میرے سامنے بیٹھ کر ہانپنے لگا میں کھانا کھا رہا تھا۔میں نے مروت کے خلاف سمجھا کہ خدا کی ایک مخلوق میرے سامنے بھوکی بیٹھی رہے اور میں شکم سیر ہو کر کھاﺅں اس لیے اس کو بھی کھلا دیا۔ابو احمد نے کہا کہ کھلانے میں مضائقہ نہیں لیکن تم لقمے میں جانچ کیوں کرتے تھے اور خوب برابر کرکے کیوں کھلاتے تھے۔اس نے کہا میں نے نیت کر لی تھی کہ اپنی روٹی میں سے آدھی خود کھاﺅں گا اور آدھی اس کو کھلاﺅں گا اس لیے میں بہت خیال رکھتا تھا کہ لقمے چھوٹے بڑے نہ ہو جائیں جو میری نیت کے خلاف پڑیں اور اللہ تعالی میری پکڑ کر لے۔
ایک وہ وقت تھا کہ جانوروں کو بھی بھوکا مرتے انسان نہیں دیکھ پاتے تھے اور ایک یہ وقت ہے کہ انسان کوئی بےروزگاری اور روٹی نہ ہونے سے مر رہا ہے اور کوئی سیلاب کی زد میں پانی میں ڈوب کے مر رہا ہے تو کوئی سیلاب سے متاثر ہو کر روٹی نہ ملنے سے،مگر افسوس ہمارے حکمران خواب تو ریاست مدینہ کا دیکھ رہے ہیں مگر خود سب سیاسی جماعتوں کے سربراہان سیاسی دنگل میں مصروف ہیں اس طرف تو کسی کا دھیان ہی نہیں رہا کہ سیلاب سے کتنا نقصان ہو رہا ہے۔
مسلسل بارشوں سے جس قدر نقصان ہو رہا ہے وہ بہت شدت اختیار کر چکا ہے ۔پنجاب کے وزیراعلیٰ نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کوئی بیس روز پہلے کیا تھا،مگر یہ ایک مختصر دورہ نقصانات کی شدت کو سمجھنے کے لیے کافی نہ تھاایسی صورتحال میں ابھی بھی ادویات،خوراک،اور دیگر ضروریات زندگی کی شکایات آرہی ہیں مگر اس طرف کسی کی توجہ نہیں۔حکومتی سربراہان کے ساتھ ساتھ تما سیاسی جماعتوں کے سربراہان کی ذمہ داری ہے کہ وہ متاثرہ علاقوں میں پہنچ کر فوری اُن کی امداد کریں تاکہ متاثرہ لوگ خود کو بے یارومددگار نہ سمجھیں مگر یہاں منظر کچھ مختلف ہے ہماری سیاسی جماعتوں کے سربراہان کی سوچ یہی ہوتی ہے کہ کوئی بھی ایسا معاملہ ہو تو صرف حکومتی جماعتوں کی ہی ذمہ داری سمجھا جاتاکہ وہی معاملات کو دیکھیں۔
کبھی زلزلہ آ جائے، یا سیلاب پاک آرمی بروقت مدد کے لیے پہنچتی ہے ۔پاکستان میں بارشوں اور سیلاب سے ایک کروڑافراد متاثر ہو چُکے ہیں۔یہ1970 کے بنگال کے سیلاب اور 2005کے زلزلے سے بڑی تباہی ہے مگر حکومت اور روایتی سیاست دان اپنی سیاست چمکا رہے ہیں، متاثرین کی کوئی امداد نہیں ہو رہی ہے۔خدارا، انسانیت کو جگائیے۔
بڑھتے مسائل کو حل کون کرے گا؟
09:29 AM, 25 Aug, 2022