اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جسٹس فائز عیسیٰ کی جانب سے قائم مقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو لکھے گئے خط کی تفصیل سامنے آ گئی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صحافیوں کو ہراساں کرنے سے متعلق ازخود نوٹس کیس کے دائرہ اختیار اور تعین کے لیے قائم بینچ پر اعتراضات اٹھائے ہیں۔ خط میں کہا گیا ہےکہ اس معزز بینچ کو یہ مقدمہ سننے کا اختیار ہی نہیں اور اگر سماعت جاری رکھی تو یہ آئین سے انحراف اور تجاوز ہو گا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ رجسٹرار سپریم کورٹ سرکاری ملازم ہے اور وہ خود کو ایک منصف اور آئینی ماہر سمجھتا ہے۔ رجسٹرار نے فوری طور پر نوٹس لیا اور 6 صفحات پر مشتمل نوٹ چیف جسٹس کو بھجوا دیا اور اس نوٹ میں شامل کئی صفحات پیپر بک کا حصہ نہیں ۔
ان کا کہنا ہے کہ آئین کے تحت کوئی بینچ کسی دوسرے بینچ کی مانیٹرنگ نہیں کر سکتا اور 5 رکنی لارجر بینچ آئین کے تحت کون سا اختیارِ سماعت استعمال کر رہا ہے۔ اگر ایسا کیا جاتا رہا تو افراتفری پیدا ہو گی اور عدالتی نظام زمین بوس ہو جائے گا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے مطابق چیف جسٹس کے پاس صرف بینچ تشکیل دینےکا اختیار ہے اور وہ یہ تعین نہیں کر سکتے کہ کون سا کیس کس بینچ میں مقرر ہو گا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خط میں یہ بھی لکھا ہےکہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ایک مرتبہ نامعلوم نمبر سے وصول ہونے والے واٹس ایپ پیغام پر ازخودنوٹس لیا جس کے باعث قومی خزانے کو 100 ارب روپےکا نقصان ہوا۔
جسٹس فائز عیسیٰ کا خط میں کہنا ہے کہ پاکستان کا ہر شہری آزادی صحافت کے لیے اسٹیک ہولڈر ہے، اس خط کی کاپی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر بھی اپ لوڈ کی جائے۔