لاہور: نامورترقی پسند شاعراورممتازماہر تعلیم احمد فراز کی آج 14 ویں برسی ہے۔ وہ 25 اگست 2008 میں انتقال کرگئے تھے ۔
احمد فراز12 جنوری 1931 کوکوہاٹ میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم کے بعد شعروشاعری کا آغاز کر دیا، وہ مختلف تعلیمی اداروں میں ماہر تعلیم کے طور پر بھی اپنے فرائض سرانجام دیتے رہے، انھیں جنرل ضیاء الحق کے دور میں پابند سلاسل بھی رکھا گیا۔
احمد فرازنے ہزاروں نظمیں کہیں اوران کے 14 مجموعہ کلام شائع ہوئے جن میں تنہا تنہا، دردآشوب، شب خون، میرے خواب ریزہ ریزہ، بے آواز گلی کوچوں میں، نابینا شہر میں آئینہ، پس انداز موسم، سب آوازیں میری ہیں، خواب گل پریشاں ہے، بود لک، غزل بہانہ کروں، جاناں جاناں اور اے عشق جنوں پیشہ شامل ہیں۔ احمد فرازکی تصانیف کے تراجم انگریزی، فرانسیسی، ہندی، یوگو سلاویہ، سویڈش، روسی، جرمنی و پنجابی میں ہوئے۔
ان کو ادبی خدمات پر انہیں ہلال امتیاز، نگار ایوارڈز اور ستارہ امتیاز سے نوازا گیا ۔
احمد فرازاردو، فارسی، پنجابی سمیت دیگرزبانوں پربھی مکمل عبوررکھتے تھے، عمرکے آخری ایام میں وہ گردوں کے عارضہ میں مبتلا ہوگئے تھے۔ احمد فرازنے ہزاروں نظمیں اوردرجنوں مجموعہ کلام بھی تحریر کیے۔ احمد فراز 25 اگست 2008ء کو وفات پاگئے۔