صاحبو! اپنی تصنیف پر مصنفین سے رائے طلب کرنا تو کسی حد تک روا ہے…… مانا کہ یہاں فنی محاسن اجاگر کرنے کی نیت پنہاں ہوگی، لیکن یہ کیا بدعت رونما ہو گئی کہ یار لوگ اپنے ملازمین سے اپنی شخصیت کے محاسن پر کتب لکھوا کر صاحبانِ تصنیف و ادب سے توصیفی کلمات لکھوانے کی آرزو میں مبتلا پائے گئے۔ اپنے شخصی محاسن کا قصیدہ سننے کی آرزو خوش نما ہرگز نہیں۔ یہ علت تو پرانے وقتوں کے بادشاہوں میں پائی جاتی تھی کہ اُن کی حرص دولت اور منصب سے مٹنے میں نہیں آتی تھی، چنانچہ وہ اپنی ذاتی تعریف سننے کی آرزو میں اپنے محل میں تنخواہ دار مؤرخ اور قصیدہ گو بھرتی کیا کرتے‘ جن کی ملازمت و مشاہرے کا انحصار اس بات پر ہوتا کہ وہ ظل سبحانی آنجہانی کی شان میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے رہیں۔ کوئی منصب خالی نہیں ہوتا، آج کل یہ منصب لفافہ بردار لکھاریوں کے ہاتھ میں ہے۔
شہرت بذاتِ خود ایک ابتلا ہے۔ شہرت‘انسان کو کوئی تعمیری کام نہیں کرنے دیتی، بلکہ شہرت دراصل تعمیری کاموں کو اپنے ہاتھوں سے فروخت کرکے اپنا نام بنانے اور کمانے کی خواہش ہے۔ شہرت ایسی ابتلا دو چند ہو جاتی ہے اگر شہرت کو عبرت میں بدلتا ہوا دیکھنے کے آثار سامنے دیکھ کر ایک شہرت یافتہ انسان مزید شہرت کے لیے ہاتھ پاؤں مارنا شروع کر دے۔ شہرت میں اگر دین کا حوالہ شامل ہو‘ تو اِس کارگہ عبرت میں جس قدر پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے‘ وہ محتاجِ بیان ہرگز نہیں۔ یہ دنیا جائے عشرت نہیں‘جائے عبرت ہے۔ شہرت سے بچنا چاہیے‘ معلوم نہیں یہ کب عبرت میں بدل جائے۔ شہرت اور نیک نامی میں فرق ہوتا ہے۔ بزرگوں کا نام لینے اور نام بیچنے میں فرق ہوتا ہے، مصلح ہونے اور پیشہ ور خطیب ہونے میں فرق ہوتا ہے۔ پیشہ ور کسی بھی شعبے کا ہو‘ قابلِ تعریف ہرگز نہیں ہوتا۔ پیشہ ور پیر سے بچنا چاہیے، پیشہ ور ناصح سے بچنا چاہے اور اور پیشہ وار خوشامدی سے بھی بچنا چاہیے…… لیکن یہ”چاہیے“ تو اُن لوگوں کے لیے ہے جو چاہیں اور دل سے چاہیں، جو لوگ اپنے شعبہئ درس و تدریس کا مقصد و مصدر دولت اور پھر شہرت کو جانتے ہیں، جو دولت اور شہرت کے کارپوریٹ کلچر کا حصہ بن جائیں‘ وہ کیونکر بچیں گے، بلکہ جانتے بوجھتے‘ یہ سب کچھ کر گزیں گے۔
ایسا بھی ہوا کہ ایک اُبھرتا ہوا نوجوان لکھاری ہمارے پاس کتاب لے کر آیا کہ اس پر کچھ لکھ دیں، دیکھا کہ مثبت سمت میں لکھا جا رہا ہے، تحریر کے پس پشت ایک تعمیری سوچ کارفرما ہے، اس نوخیز کونپل میں درخت بننے کی صلاحیت بھی موجود ہے، چنانچہ”وتعاونو علی بالبر والتقویٰ“ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے سندِ توصیف جاری کردی۔ امتدادِ زمانہ نے دکھایا کہ کامیابی کی طرف بڑھتے ہوئے قدم لڑکھڑا گئے، اونچی اُڑان اور تان میں توازن برقرار نہ رہا، اپنے اصل سے منحرف ہونے کے تمام احوال نمایاں ہونے لگے۔ صاحبو! ایسے میں بے اختیار دل چاہا کہ اپنی جاری کردہ سند ِتوصیف واپس لے لی جائے‘ مبادا یہ حضرت اس سند کو وقت بے وقت کام میں لاتے رہیں۔ ایسا بھی ہوا کہ ایک پیرِفرتوت کی ریشِ سفید دیکھ کر ہم ایسے ریشہ ختمی ہوئے کہ اُس کی کتاب پر جھٹ سے ایک توصیفی کالم لکھ مارا۔ ان کے دعویٰ ہائے عشق ِ مصطفویؐ پر بغیر تحقیق کے "ایمان" لے آئے، کچھ ہی عرصہ بعد راز کھلا کہ موصوف ناصبی خیالات کے حامل ہیں۔ اب اپنے کردہ گناہ کو ناکردہ کی فہرست میں ڈالنے کے لیے توبہ کی، اور یہ دعا بھی کہ یہ حضرت اپنی کتاب میں ہمارا مضمون شامل نہ کرنے پائیں۔
لفظ ایک مقدس امانت ہے، جس کے پاس لفظ بولنے یا لکھنے کا ہنر ہو‘ اُس پر ذمہ داری دو چند ہوجاتی ہے۔ لفظ وکیل ہوتے ہیں۔ ہم لفظوں کے ذریعے سچ اور جھوٹ کے حق میں وکالت کرتے ہیں۔ سچوں کا وکیل ہونا سچوں میں شامل کرتا ہے”کونو مع الصادقین“ کا باب رقم کرتا ہے۔ جھوٹوں کی وکالت‘ انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی۔ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے، اس لیے جھوٹ کے مقدر میں کوئی سفر نہیں ہوتا۔ سچ خاموش بیٹھا بھی محوِ سفر ہوتا ہے۔
آمدم برسرِ مطلب! تعریف کرنے والا تو شاید بچ جائے، لیکن تعریف سننے کی لت پالنے والا بمشکل بچ پائے گا۔ تعریف کرنے کے باب میں ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ تعریف فقط حوصلہ افزائی کے لیے کی جاتی ہے۔ انجمن ستائشِ باہمی کا حصہ بننے کے لیے تعریف لکھنا اور بولنا کم ظرفی ہے۔ اِس نیت سے کسی کی تعریف کرنا کہ کلاں یہ بھی میرے بارے میں تعریفی کلمات بولے گا‘ ایک صریح بدنیتی ہے۔ نیت درست ہو‘ تو غلط اقدام بھی آگے چل کر درست ہو جاتے ہیں۔ فطرتِ کاملہ اچھی نیت کی خود نگہبانی کرتی ہے۔ بُری نیت کیا ہے؟ ذاتی مفاد کی تکمیل کرنے کی ہر نیت بابِ فقر میں بُری نیت ہی کہلائے گی۔ ایسی نیت میں برکت نہیں ہوتی۔ کہا گیا کہ جھوٹی تعریف صرف اپنی بیگم کی جائز ہے کہ ایک حدیث میں وہ تین جھوٹ جو جائز قرار دیے گئے ہیں‘ اس میں بیگم کی جھوٹی تعریف بھی شامل ہے…… دیگر دو معاملات میں دوبھائیوں میں صلح کرانے کے لیے بولا گیا جھوٹ اور میدانِ جنگ میں جان بچانے کے لیے گھڑا گیا جھوٹ مستثنیٰ ہیں۔ گھر میں تعریف کرنے کے لیے اپنی اَنا کو جھکانا پڑتا ہے اور جس کام میں اَنا جھک جائے وہ پسندیدہ کام ہوتا ہے۔
تعریف سننے والا کسی بڑی منزل کا مسافر نہیں ہوتا۔ اپنی تعریف سننے کے لیے رکنا اور جھکنا پڑتا ہے۔ جو رُک گیا‘وہ مسافر کب رہا؟ جو جھک گیا‘وہ حق کے لیے کب اُٹھے گا؟ ایک شخص کسی کی تعریف اُس کے منہ پر کر رہا تھا، رسولِ رحمتؐ نے یہ دیکھ کر فرمایا کہ اے شخص‘ تم نے اپنے بھائی کو ذبح کر دیا ہے۔ معلوم ہوا کہ تعریف کسی کی غیرموجودگی میں کرنی چاہیے اور تنقید اُس کے روبرو ہونی چاہیے۔ ہم اِس کے اُلٹ چلتے ہیں …… کوئی سامنے ہو‘تو تعریف کے ڈونگرے برساتے ہیں اور کسی کو غیر موجود پائیں تو تنقید کے نشتر چلاتے ہیں۔ تنقید درست بھی ہو‘ تو کسی کی غیر موجودگی میں یہ غیبت کے باب میں آئے گی۔ مروت اور حقیقت میں فرق ملحوظ رکھنا چاہیے۔ سچ بولنے کا مطلب یہ نہیں کہ انسان اخلاق سے باہر ہو جائے، اور مروت کے مارے ہوئے کویہ نہیں چاہیے کہ وہ کسی تعریف سے ماردے۔
اگر ہم مخلوقِ خدا کا بھلا کرنے والا کوئی کام کر رہے تو اِس کا معاوضہ مخلوق سے تعریف کی صورت میں کیوں وصول کریں؟ خدا کا کام ہے……۔ اگر کام برائے خدا ہے‘ تو خدا جانے اور اس کا کام!! اللہ کے بندے کو اپنی بندگی سے غرض ہونی چاہیے، اِسے بندوں کے دَر پر دَر بدر نہیں ہوناچاہیے کہ وہ اِس کے کشکول میں تعریف کے چند کھنکتے ہوئے سکے ڈال دیں۔
مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ اپنی کتاب ”کرن کرن سورج“ میں فرماتے ہیں:”کسی انسان کے کم ظرف ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنی زبان سے اپنی تعریف کرنے پر مجبور ہو، دوسروں سے اپنی تعریف سننا مستحسن نہیں اور اپنی زبان سے اپنی تعریف‘ عذاب ہے“
مخلص انسان اپنی تعریف و توصیف سے بے نیاز ہوتا ہے۔ تعریف کی ریڈ کارپٹ ویلکم پارٹی میں شامل ہونے کے بجائے اُسے ملامت کی کسی گمنام گلی سے گزرنا زیادہ سہل معلوم ہوتا ہے۔
چل بلھیا، چل اوتھے چلّیے جتھے سارے انّھے
نہ کوئی ساڈی ذات پچھانے، نہ کوئی سانوں منّے
پنجاب سے باہر پنجابی جاننے والے کم ہیں، لہٰذا اِس شعر کا اُردو ترجمہ وتفہیم بھی ہم پر واجب ہے۔ مخلصین کے سردار اور عارفوں کے امام حضرت عبداللہ شاہ شطاری المعروف بابا بلھے شاہ ؒخود کلامی کے انداز میں فرما رہے کہ ہمیں اب ایسی جگہ چل کر رہنا چاہیے جہاں لوگ ہماری ذات و صفات بھی نہ پہچانتے ہوں اورجہاں کوئی ہمیں ماننے والا بھی نہ ہو۔ فقیر کسی کی گردن میں اپنی عقیدت کا طوق نہیں ڈالتا۔