ملک میں ایک طویل دھینگا مشتی کے بعد حکومتی تبدیلی آخر کار ممکن ہو گئی، اس تبدیلی نے جہاں بڑے پیمانے پر سیاسی،آئینی اور قانونی بحث کو جنم دیا وہیں سابقہ حکومت کی کارکردگی کو عمران خان نے ایک سازش اور امریکی مکتوب کی گرد میں کہیں گم کردیا ہے اس کے ساتھ ہی ایک مرتبہ پھر قومی سلامتی کے حساس ایشو بھی سر اٹھا کر سامنے آگئے ہیں،یہ حقیقت ہے کہ سابقہ اپوزیشن اور موجودہ حزبِ اقتدار کے لئے معیشت پھولوں کی سیج ثابت نہیں ہوگی مگرارض خداداد میں جب بھی انتقالِ اقتدار ہوتا ہے تو معیشت کو کم و بیش اسی قسم کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے،ان مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ ادائیگیوں کے توازن کا ہے، گزشتہ 4 بار ا نتقالِ اقتدار سیمشاہدے میں آرہا ہے جب بھی نئی حکومت آتی ہے اسے زرِمبادلہ کے ذخائر انتہائی کم سطح پر ملتے ہیں جس کی وجہ سے ہر حکومت کوآئی ایم ایف پروگرام میں جانا پڑتا ہے، اس مرتبہ صورتحال اس لیے مختلف ہے کہ موجودہ حکومت کے پاس انتخابات تک ڈیڑھ سال کا عرصہ باقی ہے، نئی حکومت کو سابقہ حکومت کے آئی ایم ایف سے طے کردہ پروگرام کو بحال اور اس کو مکمل کرنا ہوگا جو لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہوگا،اس پروگرام کی تکمیل سے مہنگائی کی ایک نئی لہر وجود میں آئے گی جو گرانی کی چکی میں پستے عوام کیلئے زہر قاتل بھی ہو سکتی ہے،عمران خان حکومت کی مقبولیت میں کمی کی وجہ بھی مہنگائی ہی تھی، اسی وجہ سے اتحادی بھی ساتھ چھوڑ گئے،اس پر عمران خان کی طرف سے بھٹو بننے کی کوشش اور سامراج کیخلاف محاذ آرائی ،حکومت کی تبدیلی میں امریکی مداخلت کا الزام اور روس و چین کو باقاعدہ فریق بنانا بھی ایک سنجیدہ مسئلہ ہے جس کی وجہ سے ملکی خارجہ پالیسی میں تو تبدیلی ناگزیر ہو گی مگر ملک کے اندرونی حالات بھی متاثر ہو سکتے ہیں،عمران خان کے دورہ روس کے بعد ملک میں اچانک در آنے والی دہشت گردی کی لہر بھی فوری غور طلب معاملہ ہے۔
ملک میں رونما ہونے والی سیاسی ہلچل کے دوران ملک کے بیرونی ادائیگیوں کے رسک میں اضافہ ہوگیا ہے، پاکستان کو قلیل مدت میں بیرونی مالیاتی خطرات کا سامنا ہے اور اس خطرے میں عالمی سطح پر اجناس کی قیمتوں میں اضافہ صورتحال کو مزید پیچیدہ اور مشکل بنا رہا ہے، نئی حکومت کے لیے اہم یہ ہے کہ وہ کس طرح موجودہ اور آئندہ مالی سال کے دوران واجب الادا قرضوں کو ری فنانس کرسکے اور نئے قرض بھی حاصل کرسکے،آئندہ بجٹ بھی نئی حکومت کیلئے آسان نہیں ہو گا،اس صورتحال سے نبٹنے کیلئے آخر کار عالمی مالیاتی اداروں کے پاس جانا ہو گا اور ان کی شرائط قوم کا معاشی گلہ گھونٹنے کے مترادف ہو گا،خدانخواستہ ایسی نوبت آگئی تو ملکی معیشت کو دیوالیہ ہونے سے بچانا معجزہ ہی ہو گا،ان گمبھیر حالات سے نبٹنے کیلئے پہلا اورآخری اقدام قومی یکجہتی ہے،قومی سیاستدانوں پر یہ حقیقت عیاں ہو چکی ہے کہ مخالفت اور مخاصمت کی سیاست ملک و قوم کیلئے مضر ہے اورآج تک اس سے ملک کو فائدہ ہوا نہ قوم کو، ملکی بحران حل ہوئے نہ عوامی مسائل ،موجودہ حکمران خود عمران حکومت کے ساڑھے تین سال میں حکومت کو مشکلات سے دوچار کرنے میں مگن رہے حالانکہ حکومت کے کسی مشکل میں گرفتار ہونے کا سیدھا مطلب ہے عوام کا مشکلات کے بھنور میں دھنسنا،اب عمران خان نے موجودہ حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے فوری الیکشن کا مطالبہ کیا ہے اور تاخیر کی صورت میں کارکنوں کو اسلام آبادآنے کی تیاری کی بھی ہدایت کر دی ہے،عمران خان بھی گزشتہ قریب ربع صدی سے سیاسی میدان میں ہیں،اس عرصہ کا زیادہ حصہ انہوں نے اپوزیشن کی سیاست کی،وہ جانتے ہیں کہ اس ساری مدت میں وہ حکومت کیلئے مسئلہ بنے رہے تو خمیازہ عوام کو ہی بھگتنا پڑا۔
مملکت خداداد کے شہریوں کی بھاری اکثریت مسلمان ہے،ماہ رمضان رحمت بخشش اور دعائوں کی قبولیت کا مہینہ ہے،روزہ مسلمانوں کی اجتماعی عبادت ہے ویسے تو نماز روزہ حج زکوٰۃ سب اجتماعی عبادات ہیں ،دراصل اسلام ہے ہی اجتماعیت کا مذہب،اس ماہ مبارک میں رب کریم اپنے بندے کی دعائوں کو شرف قبولیت عطا کرتے ہیں،آئندہ کچھ دنوں میں شب قدر بھی آنے والی ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے عمران خان نے کارکنوں کو شب قدر شب نجات کے طور پر منانے اور اس روز قومی اتحاد،حقیقی آزادی کیلئے کارکنوں کو دعا کرنے کی تلقین کی ہے،کیا ہی اچھا ہوتا کہ ملک کی ساری قومی سیاسی قیادت اپنے کارکنوں کو اس شب ملکی ترقی،عوامی خوشحالی،ملی یکجہتی،غیر ملکی قرضوں سے نجات،معیشت کی بحالی،اندرونی بیرونی خطرات سے نجات کے طور پر دعائیہ شب کے طور پر منانے کی تلقین کرے اور پوری قوم شب قدر میں اللہ سے ملک و قوم کی بہتری بھلائی کیلئے دعا کرے،22کروڑ مسلمان جب اپنے رب کو خلوص گریہ زاری اور یقین کیساتھ پکاریں گے تو وہ ضرور رحم فرمائیں گے اور وہ ملک جو ماہ رمضان کی شب قدر کو وجود میں آیا اور جس کے قیام میں لاکھوں مسلمانوں کا لہو شامل ہے اور جس کا مقصد ’’لا الٰہ الااللہ‘‘ تھا اس کے شہریوں کی فریاد ضرور سنیں گے اور اس قوم کو حقیقی آزادی،خوشحالی اور ترقی و کامرانی عطا فرمائیں گے۔
ہم بحیثیت قوم ،اپنا ماضی، اپنے اسلاف کی قربانیوں کو فراموش کر چکے ہیں اور سب سے اہم اسی ماہ رمضان میں رب کریم نے ہمیں اصلاح احوال کیلئے زندگی کا قرینہ قراٰن پاک کی صورت میں دیا اسے اپنی زندگیوں سے نکال چکے ہیں،یہ ماہ مبارک اس حوالے سے بھی عزم کا مہینہ ہے،ہمیں ایک امت بن کر رہنا ہو گا،اجتماعی طور پر رب کریم کو پکارنا ہو گا،ایسا ممکن ہو جائے تو کوئی وجہ نہیں اللہ جل شانہ کی مدد ہمارے شامل حال نہ ہو۔
ہمارا پیارا ملک اپنے قیام کے بعد سے ہی سیاسی اور انتظامی بحران سے دوچار رہا ہے اس بحران سے نبٹنے کیلئے بھی ہمیشہ نت نئے بحران پیدا کئے گئے،ہر حکمران نے خود کو نجات دہندہ سمجھا اور اپوزیشن کو ملک کیلئے خطرہ قرار دیا ،یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے،شہباز شریف عمران خان کو ملک کیلئے خطرہ کہتے تھے اور کہتے ہیں ،عمران خان شریف خاندان اور زرداری کو ملک کیلئے خطرہ قرار دیتے ہیں سوال یہ ہے کہ کب تک سیاسی معاملات عدالتوں میں زیر بحث رہیں گے ؟کب تک تیسری قوت کو مداخلت کی دعوت دی جائے گی؟ کب تک منتخب حکومتیں قبل از وقت تحلیل ہوں گی؟اس بحران کا حل ہمیں امریکہ نے دینا ہے نہ کسی دوسری غیر ملکی طاقت نے،ہمیں خود اس کا حل نکالنا ہے،اور اس کا واحد حل ذاتی مفادات کو تج کر سیاسی مفادات کو نظر انداز کر کے اقتدار کے لالچ کو پس پشت ڈال کر ملکی مفاد میں فیصلے کرنا ہے،ملی یکجہتی اور قومی اتحاد ، بحران سے نبٹنے کی مشترکہ کوشش ہے،ماہ رمضان اس کیلئے بہترین موقع ہمیں دے رہا ہے تمام سیاستدانوں کیلئے یہ لمحہ فکریہ اور عمل کا وقت ہے۔