تحریکِ انصاف کے بانی اور مرکزی رہنما عمران خان کی حکومت کی رخصتی، بظاہر تو ایک آناً فاناً ظہور میں آ جانے والا حادثہ دکھائی دیتا ہے۔ تا ہم اگر حقائق کا صدق دلی سے جائزہ لیں تو اسے ان کی حکومت کا منطقی انجام تسلیم کرنے میں چنداں دشواری نہیں ہو گی۔ بات اگر پاکستان کے سب سے اہم صوبے پنجاب سے شروع کی جائے تو پہلا سوال یہ پوچھنا بنتا ہے کہ عثمان بزدار میں آخر انہیں کیا ایسا نظر آیا جو دوسروں کو خوردبین لگا کر دیکھنے میں نظر نہ آ سکا اور انہوں نے اسے صوبے کا وزیرِ اعلیٰ لگا دیا۔ اور پھر پورے ملک نے خان صاحب کو ان کی غلطی کا احساس دلانے کی مسلسل کوشش کی، یہاں تک کہ ان کی اپنی پارٹی کے لوگوں نے ان کے آگے ہاتھ جوڑ لیے مگر خان صاحب ٹس سے مس نہ ہوئے۔ کہنے والے تو یہاں تک کہتے ہیں، اور ٹھیک کہتے ہیں کہ خان صاحب کی تنزلی کی ایک بڑی وجہ عثمان بزدار کا وزیرِاعلیٰ برقرار رہنا تھا۔ اوپر سے خان صاحب کی یوٹرن والی منافقت۔ کو ئی مجھے سمجھائے گا کہ اگر یوٹرن لینا اپنے وعدے سے پِھر جانے والی بات نہیں ہے تو پھر وعدے سے پِھر جانا کس چڑیا کا نام ہے۔ دراصل جب خان صاحب سیاست میں وارد ہوئے تو ان کے دامن میں کرکٹ کے ورلڈ کپ اور شوکت خانم ہسپتال کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔ کرکٹ ان کے ذہن پہ اس حد تک سوار تھی کہ اپنے سب بیانات میں کرکٹ کی اصلاحات کے سوا کسی بھی اور قسم کی دانائی کی بات سننے کو نہیں ملی۔ ستم یہ کہ ان کی پارٹی میں جتنے بھی نمایاں لیڈر تھے وہ اس حد تک مفاد پرست اور خود غرض تھے کہ خان صاحب کی غیر موجودگی میں ایک دوسرے کی شکل تک دیکھنے کے روادار نہیں تھے۔
خان صاحب، اب آپ اپنی رخصتی کے بعد اپنی مظلومی کا رونا تو رو رہے ہیں، مگر ایک عام آدمی کیا کہہ رہا ہے، اس پہ آپ اور آپ کے حواری رتی برابر بھی کان دھرنے کو تیار نہیں۔ مگر اپنے کالم کے توسط سے اس کی بات میں آپ کے گوش گزار کرنے کی کو شش کروں گا۔ تو وہ کہہ رہا ہے کہ میںآپ کی بات مان جاتا کہ آپ کو واقعی امریکی سازش کے تحت نکالا گیا ہے:
1۔ اگر آپ 35 پنکچر والے الزام کو سیاسی بیان نہ قرار دیتے۔ 2۔ اگر آپ 2018 کے الیکشن کے منشور پر قائم رہتے۔ 3۔ اگر آپ پاکستان کو عالمی کرپشن کے انڈیکس میں ایک درجہ بھی نیچے لاتے۔ مگر وہ آپ کی حکومت میں 6 درجے اور بھی اوپر گیا۔ 4۔اگر آپ خیبر پختونخوا کے صحت کا نظام اپنے کزن کے حوالے نہ کرتے اور پختونخوا کے ہسپتالوں کو ایم ٹی آئی جیسے ناسور کے حوالے نہ کرتے۔ 5۔ اگر آپ زلفی بخاری اور شہباز گل، شہزاد اکبر جیسے لوگوں کو نہ نوازتے۔ 6۔ اگر آپ کروڑ کے بجائے ایک لاکھ نوکریاں بھی دے دیتے۔ 7۔ اگر آپ پچاس لاکھ گھر کے بجائے 50 ہزار بھی بنا دیتے۔ 8۔ اگر آپ نوجوانوں کو بلا سود قرضہ دیتے اور ان کو انڈوں اور کٹوں کے پیچھے نہ لگاتے۔ 9۔ اگر آپ اپنی نااہلی کو چھپانے کے لیے پچھلی حکومتوں کو کوسنے کے بجائے معاشی حالات بہتر کرنے کے لیے کچھ عملی اقدامات کر لیتے۔ 10۔ اگر آپ اپنی بیوی سے بلیک میل نہ ہوتے اور اس کی دوست فرح بی بی کے کہنے پر عثمان بزدار جیسے نا تجربہ کار شخص کو وزیر اعلیٰ پنجاب نامزد نہ کرتے۔ 11۔ اگر آپ اپنے مخالفین کے لیے پختونخوا میں احتساب کمیشن بنا کے اس کو ختم نہ کراتے جب انہوں نے آپ کی پارٹی کا احتساب شروع کرنا چاہا۔ 12۔ اگر آپ وزیر اعظم ہاؤس ہیلی کاپٹر کے بجائے سائیکل پر جاتے۔ 13۔ اگر آپ وزیر اعظم ہاؤس کو یونیورسٹی بناتے۔ 14۔ اگر آپ گورنر ہاؤس کی دیواروں کو گراتے۔ 15۔ اگر آپ پروٹوکول کا خاتمہ کراتے۔ 16۔ اگر آپ پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو کے ساتھ اتحاد نہ کرتے اور اس کو وزیر اعلیٰ کے لیے نامزد نہ کرتے۔ 17۔ اگر آپ شیخ رشید جس کو آپ اپنا ذاتی چپڑاسی بھی نہ رکھنا چاہتے تھے اور اس کو پاکستان کے اعلیٰ عہدوں سے نہ نوازتے۔ 18۔ اگر آپ بی آر ٹی میں کرپشن کے تحقیقات پر عدالت سے سٹے نہ لیتے۔ 19۔ اگر آپ فارن فنڈنگ کیس کے فیصلے پر الیکشن کمشن سے سٹے نہ لیتے۔ 20۔ اگر آپ نیب کو اپنی انا کی خاطر مخالفین کے خلاف استعمال نہ کرتے۔ 21۔ اگر آپ پاکستان کے باہر 200 ارب ڈالر میں صرف 1 ارب بھی واپس لاتے تو میں مان جاتا کہ آپ کو امریکی سازش کہ تحت نکالا گیا ہے۔
خان صاحب یہ تھا 2018 کے الیکشن میں آپ کا منشور۔ اگر اس میں ایک بھی نکتہ پر آپ نے عمل کیا ہوتا تو میں مان جاتا کہ آپ کو امریکی سازش کی تحت نکالا گیا ہے۔ مگر یہ صاف ظاہر ہے کہ آپ اپنی نااہلی کی وجہ سے نکالے گئے ہیں۔ اور یہ آپ کو بھی معلوم ہے کہ اس منشور کے ساتھ آپ دوبارہ عوام کے سامنے نہیں جا سکتے۔ اس لیے آپ نے اسلام اور اینٹی امریکہ اور امریکی سازش کا کارڈ کھیلا ہے جس سے پاکستانی عوام بہت جلد دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ مگر مجھے یقین ہے کہ بہت جلد آپ 35 پنکچروں والے الزام کی طرح اس سے بھی یوٹرن لے کر ایک دن کسی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے وقت مسکرا کر کہہ دیں گے کہ وہ تو صرف ایک سیاسی بیان تھا جس طرح اینٹی امریکہ ہونے سے یوٹرن لیا ہے۔ یہاں پر کالم کے اختتام سے پہلے یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ وطنِ عزیز کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ کچھ لوگ انتہائی نیک ماں باپ کی اولاد ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے وہ ایسے پیشوا کے مقلد بن جاتے ہیں جس کا ہر ناجائز حتیٰ کہ حرام کام بھی ان کو عین شریعت لگتا ہے۔ اس سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ جو بھی ان کے پیشوا کے ناجائز و حرام کو جائز و حلال نہ مانے تو یہ نابلدمقلدین اسے مسلمان تو دور کی بات انسان بھی ماننے کے لیے تیار نہیں۔ زمانہ حاضر میں اسی قسم کے ایک فتنے نے جنم لیا ہے کہ اگر آپ ان کے پیشوا کے نقطہ نظر سے اختلاف کریں تو اس کے مقلدین دنیا و جہان کی مغلظات بکیں گے۔ قارئین کرام، مجھے اورآپ کو اپنی آنے والی نسلوں کو اس قسم کے فتنہ گروں سے بچانا ہو گا۔ وگرنہ:
ہماری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں