بلاشبہ پچھلی حکومت عوام کی خدمت کرنے میں ناکام رہی انتظامی حوالے سے بھی اس کی کارکردگی صفر تھی مہنگائی اس کے دور میں دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتی قبضہ گروپوں اور سینہ زوروں نے اودھم مچارکھا تھا۔ پنجاب میں گویا اندھیر نگری چوپٹ راج کا منظر تھا رشوت اور کمیشن خوری عام تھے۔ بغیر پیسے کے معمولی سے معمولی کام بھی نہیں ہوتا تھا آئی ایم ایف کی شرائط سے بھی زیادہ پر عمل درآمد ہوتا۔ اسٹیٹ بینک کو آزاد اور خودمختار بنا دیا گیا اس سے کوئی بھی حکومتی عہدیدار حساب کتاب بارے کچھ نہیں پوچھ سکتا تھا اب بھی نہیں جس پر معیشت پر دباؤ بڑھ گیا ملک کے مجموعی حالات ایک بہت بڑے بگاڑ کی طرف تیزی سے بڑھنے لگے عمران خان مگر اپنی مرضی کرتے رہے انہیں یہ احساس نہیں تھا کہ لوگوں کی حالت ہر لمحہ گمبھیر سے گمبھیر تر ہوتی جارہی ہے انہوں نے ضدی پن کا مظاہرہ جاری رکھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کو عوامی مطالبے پر بھی تبدیل نہیں کیا جس کے نتیجے میں عوام میں بے چینی انتہا کو پہنچ گئی حکومتی معاملات بری طرح سے بگڑنے لگے عوام کی اکثریت ان کو اقتدار سے الگ دیکھنے کی طلبگار نظر آنے لگی ہم نے بھی تنقید کے تیر برسائے ان کی ہر اس پالیسی کی مخالفت کی جو عوام کے مفاد میں نہیں تھی۔ یہاں تک انہیں یہ مشورہ بھی دے ڈالا کہ جب وہ اس صورت حال کو کنٹرول نہیں کر پا رہے تو انہیں گھر چلے جانا چاہیے مگر وہ کب کسی کے مشورے پر عمل کرنے والے تھے اور ہیں۔ وہ حزب اختلاف پر بیانات کے گولے داغتے۔ آخری وقت تک وہ یہی کہتے رہے کہ این آر او نہیں دوں گا یہ لوگ بد عنوان
ہیں ان کا احتساب ہو گاجو ہوتا بھی رہا مگر ایک الزام بھی ثابت نہیں ہوا ان کے مشیر وزیر انہیں حزب اختلاف سے لڑاتے رہے ان کے پاس جو ثبوت تھے وہ نہ جانے کہاں گئے مگر یہ کیا ہوا کہ جونہی ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا اعلان ہوا ایک نیا سیاسی منظر ابھرنے لگا عوام میں سوچ کی ایک نئی لہر اٹھنے لگی جس نے چند روز کے بعد ان دکھوں اور تکالیف کو دبانا شروع کر دیا جو عوام کا جینا دو بھر کر
رہے تھے پھر دیکھتے ہی دیکھتے عمران خان کے جلسوں میں لوگوں کا سیلاب آگیا کہا گیا کہ یہ سرکاری وسائل کے استعمال کی وجہ سے ہے جبکہ صورتحال بدل چکی تھی ذہنوں میں طغیانیاں آ گئی تھیں لہٰذا سڑکوں کی رونقیں بڑھنے لگیں ۔اب جب عمران خان وزیر اعظم نہیں رہے تو دیکھا جا سکتا ہے کہ ان کے جلسے پہلے سے کہیں بھر پور ہوتے ہیں انہوں نے غلامی سے آزادی کا نعرہ لگا کر لوگوں کے جذبات بھڑکا دیے ہیں امریکہ سے نفرت عروج پر ہے پہلے بھی تھی مگر حالیہ صورتحال کے پیش نظر اس میں مزید اضافہ ہوچکا ہے کیونکہ عمران خان نے یہی موقف اختیار کیا ہے کہ اسے امریکہ کی آشیر باد اور مداخلت سے اقتدار سے محروم کیا گیا ہے بات سوچنے کی ہے کہ اگر وہ حکمرانی کے فرائض بہ احسن طریقے ادا کرتے تو شائد یہ نوبت نہ آتی۔
بہرحال عمران خان اپنا غصہ نکال رہے ہیں ان کے سپورٹرز اور ووٹرز بپھرے ہوئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ان کو واپس لاؤ جب کہ نئی حکومت قائم ہوچکی ہے کابینہ بھی تشکیل پا چکی ہے کہا جارہا ہے کہ وہ ایک برس تک موجود رہے گی سوال یہ ہے کہ اگر عمران خان اقتدار میں رہتے بھی تو انہوں نے کیا کر لینا تھا مہنگائی بھی بے قابو ہوتی انتظامی امور بھی ٹھیک طورسے نہیں نمٹائے جانے تھے لہٰذا وہ جذباتی نہ ہوں۔
پر امن جلسے اور جلوس کی سیاست جاری رکھیں تاکہ لوگ ان کے ساتھ جڑے رہیں اور آنے والے انتخابات میں ان کو کامیاب بنا سکیں انہیں تو خوش ہونا چاہیے کہ حکومت کو آگے جو مشکلات پیش آئیں گی اس کا ردعمل ہے حد شدید ہوگا اور اس کا آغاز ہوچکا ہے اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں پھر یہ بھی ہے کہ حکومتی اتحاد میں بھی دراڑ پڑنے کا آغاز ہو چکا ہے کوئی جو عہدہ چاہتا ہے اسے نہیں مل رہا۔ عمران خان کو ٹھنڈے دماغ سے سوچنا چاہیے وہ آپے سے باہر نہ ہوں وہ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کے ازالے کا سوچیں اپنے دیرینہ ساتھیوں کو ساتھ لے کر چلنے کا پروگرام ترتیب دیں حزب اقتدار کے خلاف زیادہ گفتگو کرنے سے اجتناب برتیں اگرچہ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ کوئی انتقامی کارروائی نہیں کرے گی قانون اپنا راستہ خود بنائے گا مگر وہ بھی جذبات رکھتی ہے لہٰذا ماحول کو خوشگوار بنانے کی کوشش ہونی چاہیے عوام اقتدار میں کون ہے کون نہیں ہے اس میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے انہیں اپنے مسائل سے غرض ہوتی ہے انہیں انصاف چاہیے تھانوں اور پٹوار خانوں میں ان کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے اس سے نجات چاہیے میرٹ چاہیے روزگار چاہیے۔ تعلیم اور صحت کی سرکاری سطح پر سہولتیں چاہیں مگر افسوس اس طرف اب تک کسی بھی حکومت نے خاطر خواہ توجہ نہیں دی وہ اپنا پیٹ بھرتی تھوڑا بہت عوام کا منہ بند رکھنے کے لئے کچھ اقدامات بھی کرتی مگر اس سے عوام کی مجموعی حالت نہیں بدلی لہذا حکومت کو اگر عمران خان کی سیاست کاری سے لوگوں کو دور لے جانا ہے تو اسے انصاف کا علم بلند کرنا ہوگا مہنگائی کو ختم کرنا ہوگا آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے معاہدوں پر نظرثانی کرنا ہوگی اسٹیٹ بینک کو حکومت کی زیر نگرانی کرنا ہوگا میڈیا پر بے جا پابندیوں سے گریز کرنے کی ضرورت ہے سرکاری اداروں کو عوام کا خادم بنانا ہوگا بصورت دیگر عمران خان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے آگے وہ نہیں ٹھہر سکے گی مگر اس کے عوام کی خدمت سے متعلق منصوبے یہ منظر یکسر تبدیل کر سکتے ہیں بہر کیف امید کی جاسکتی ہے کہ حکومت پکڑ دھکڑ پروگرام کے بجائے مسائل و مشکلات کم کرنے سے متعلق سوچ بچار کرے گی تاکہ لوگوں کو یہ باور کرایا جا سکے کہ وہ اقتدار کے لیے نہیں ان کی خدمت کے لیے آئی ہے یہی ایک توڑ ہے عمران خان کو غیر مقبول بنانے کا ‘ وگرنہ صورتحال خان کے حق میں ہو گی۔ حرف آخر یہ یہ کہ وزیراعظم شہباز شریف اپنے گزشتہ دور میں یہ ثابت کرچکے ہیں کہ وہ ان تھک محنت کرنے والے حکمران ہیں وہ عوامی فلاحی منصوبوں کے لیے مضطرب رہے ہیں اب وہ ملک کے وزیراعظم ہیں انہیں خارجہ پالیسی پر بھی غور کرنا ہے روس اور چین کے حوالے سے وہ کہاں تک جا سکتے ہیں انہیں کوئی فیصلہ کرنا ہے مستقبل کے سفر میں روایتی دوستوں کے علاوہ نئے دوستوں کو بھی ہمراہ کرنا ہوگا کیونکہ ہمیں وہ منزل نہیں مل سکی جس کی خواہش کی گئی !