لاہور، قصور کے بعد ملتان اور صادق آباد میں بھی جعلی انجیکشن لگنے سے بینائی جانے کے واقعات 

لاہور، قصور کے بعد ملتان اور صادق آباد میں بھی جعلی انجیکشن لگنے سے بینائی جانے کے واقعات 

لاہور: پنجاب میں آشوب چشم کے مرض میں مبتلا متعدد افراد جعلی انجیکشن لگنے کے باعث بینائی سے محروم ہوگئے۔جعلی انجیکشن لگنے کے واقعات ، قصور، لاہور، ملتان اور صادق آباد میں رپورٹ ہوئے ہیں۔ 

پرائیویٹ کمپنی کے ناقص انجکشن لگانے سے درجنوں مریضوں کی بینائی چلی گئی۔ قصور اور لاہور کے آشوب چشم وبا سے متاثرہ مریضوں کو انجکشن لگائے گئے، پنجاب حکومت نے انکوائری کا حکم دے دیا۔

نگراں وزیر صحت ڈاکٹر ندیم جان نے بتایا کہ آشوب چشم کی وبا کی تحقیقات کی جا رہی ہیں اور مارکیٹ سے آنکھوں کے انجیکشن اٹھا لیے گئے ہیں جبکہ جعلی انجیکشن فراہم کرنے والوں کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔۔

وزیر صحت نے بتایا کہ آنکھوں کی دوا مارکیٹ میں بیچنے کی اجازت نہیں ہے، آشوب چشم پر کمیٹی بنائی ہے جو 3 روز میں رپورٹ کرے گی۔ میڈیسن اور سپلائی چین سے متعلق رپورٹ مانگی ہے، ضروری ادویات کی عدم فراہمی پر تحقیقات جاری ہیں، کارروائی ہوگی۔

ڈاکٹر ندیم جان نے کہا کہ محکمہ صحت پنجاب کے پاس 20 متاثرہ افراد کے نام آئے ہیں، جعلی انجیکشن کا سیمپل ٹیسٹ کرانے کے لیے محکمہ صحت کی لیب بھجوایا ہے، ٹیسٹ رپورٹ فوری نہیں ملتی، 2 سے 3 روز درکار ہوتے ہیں۔

دوسری جانب، ڈرگ ریگولیرٹی لیبارٹری کی درخواست پر تھانہ فیصل ٹاؤن لاہور میں مقدمہ درج کر لیا گیا۔ مقدمے کے متن کے مطابق آشوب چشم میں استعمال ہونے والا انجیکشن فیصل ٹاؤن میں تیار کیا گیا تھا اور انجیکشن نجی اسپتال کی لیب میں تیار ہوا تھا، پولیس نے لیب مالک نوید عبداللہ اور ملازم  بلال رشید کے خلاف مقدمہ درج کیا۔

ایف آئی آر کے مطابق انجیکشن کی سپلائی بلال رشید نے قصور میں کی تھی، مقدمے میں ڈرگ ایکٹ 1976/23/27 اور 2012/30 شامل ہیں، ملزمان نے بغیر لائسنس ادویات کی تیاری اور ذخیرہ اندوزی کی تھی، ملزمان نے غیر رجسٹرڈ ادویات اور ڈریپ ایکٹ 2012 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انجیکشن فروخت کیا۔

ڈاکٹر جمال ناصر کا کہنا ہے کہ ڈریپ نے انجیکشن کا بیچ فوری ختم کر دیا ہے، ظالم لوگ ایک ایک انجیکشن پر ایک ایک لاکھ روپے کما رہے تھے، نوید اور حافظ بلال کے خلاف مقدمہ درج کرکے گرفتاری کے لیے چھاپے مار رہے ہیں، یہ واقعہ لاہور او قصور ہی نہیں بلکہ ملتان اور صادق آباد میں بھی ہوا ہے۔

مصنف کے بارے میں