کیسی عجیب بات ہے کہ سیلاب تو پاکستان میں آیا اور آزمائش میں بھی پاکستانی شہری ہیں لیکن ہم سے زیادہ فکر غیروں کو ہے ۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ پاکستان کا بڑا حصہ سیلاب سے ڈوبا ہوا ہے اور اسے مدد کی ضرورت ہے۔ جس وقت امریکی صدر یہ بیان دے رہے تھے اس وقت ہالی وڈ کی سپر اسٹار انجلینا جولی اقوام متحدہ کی سفیر کے طور پرگذشتہ کئی دنوں سے پاکستان میں سیلاب متاثرین کی دلجوئی کے لئے موجود تھیں اور انھوں نے بھی بین الاقوامی برادری سے پاکستان کی مدد کی اپیل کی ہے ۔ اس سے پہلے اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری نے بھی پاکستان کا دورہ کر کے پاکستانی حکومت اور سیلاب متاثرین سے اظہار یکجہتی کیا اور انھوں نے بھی بین الاقوامی برادری سے مدد کی اپیل کی ۔ یورپین ممالک نے اسی طرح اظہار یکجہتی بھی کیا اور امداد بھی دی ہے ۔یہ تو مغرب کی بات ہے لیکن سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت برادر اسلامی ممالک نے بھی دل کھول کر سیلاب متاثرین کی مدد کی ہے اور اب تک نقد امداد کے علاوہ ان ممالک کی جانب سے درجنوں جہاز امدادی سامان لے کر آ چکے ہیں ۔ غیروں کو تو فکر بھی ہے احساس بھی اور پریشانی بھی ورنہ کیا ضرورت تھی کہ ہزاروں کلو میٹر دور امریکہ کے صدر کو دنیا سے پاکستان کی مدد کی اپیل کرنے کی اور کیا ضرورت تھی پاکستان کے ساتھ زبانی کلامی ہمدردی نہیں بلکہ عملی طور پر بھی مدد کرتے لیکن اس کے برعکس دکھ یہ ہے اپنوں کا کیا کردار ہے ۔ ہمیں اپنے سیاسی مفادات اس قدر عزیز ہیں کہ ہمیں اس کے سوا کچھ اور نظر ہی نہیں آتا ۔ ہمارا قومی کردار کیا ہے اگر اسے دیکھنا ہے تو عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی کارروائی کو بغور دیکھ لیں کہ ہر سماعت پر عدالتی رویوں پر غور ہمیں بہت کچھ سمجھا بھی دیتا ہے اور بتا بھی دیتا ہے ۔ گذشتہ سماعت پر کسی اور نے نہیں بلکہ خود عدالت نے فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن خان صاحب کی معافی پر فرد جرم کی کارروائی موخر کر دی گئی اور کچھ پتا نہیں کہ اب بات فرد جرم تک پہنچ بھی پائے گی یا اس سے پہلے ہی پتلی گلی سے خان صاحب کو نکال دیا جائے گا اس لئے کہ معافی تو نہال ہاشمی ، دانیال عزیز اور طلال چوہدری نے بھی مانگی تھی لیکن شاید ’’وہ سال دوسرا تھا یہ سال دوسرا ہے ‘‘ ۔
خیر بات ہو رہی تھی کہ سیلاب متاثرین کی کہ اس میں غیروں کو تو فکر ہے لیکن ہمارا کردار کیا ہے کہ اس دوران بھی ہم اپنے محبوب مشغلوں سے باز نہیں آرہے ۔ عمران خان صاحب نے وزیر اعظم کو تو کہہ دیا کہ قوم سیلاب کا سامنا کر رہی ہے اور وہ غیر ملکی دوروں پر ہیں ۔ یہ خان صاحب کے مخصوص لیکن انتہائی منفی طرز سیاست کی ایک ہلکی سی جھلک ہے ۔ سب کو علم ہے کہ میاں شہباز شریف کوئی سیر سپاٹے کے لئے نہیں گئے بلکہ ایک تو وہ ملکہ برطانیہ کی آخری رسوم میں شرکت کے لئے گئے کہ جو رسم دنیا بھی ہے اور انھیں مدعو بھی کیا گیا تھا اور یقین کریں کہ اگر انھیں مدعو نہ کیا جاتا تو پھر عمرا خان نے کہنا تھا کہ ان کی تو دنیا میں کوئی عزت ہی نہیں ہے کہ انھیں کسی نے بلایا ہی نہیں ہے ۔ اس کے بعد وہ اقوام متحدہ کے جنرل
اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے لئے گئے کہ جہاں انھوں نے اپنی تقریر میں بھی اور مختلف سربراہان مملکت سے ملاقات میں بھی سیلاب زدگان کی صورت حال سے آگاہ کیا اور اس حوالے سے مدد کی اپیل کی ۔ اس کے علاو ہ بلاول بھٹو کو دیسی ولائتی کہنے والے کے اپنے بچوں کا پتا نہیں کہ ان کا شمار دیسی میں ہوتا ہے یا ولائتی ہیں ۔ بلاول بھی بین الاقوامی برادری کو پاکستان کی صورت حال سے آگاہ کر رہے ہیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ دوسروں پر طعن زنی کرنے والے خان صاحب سے کوئی یہ تو پوچھے کہ سیلاب متاثرین کے حوالے سے خود ان کا کیاکردار ہے ۔ وہ بیچارے کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں اور خان صاحب کو اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کے لئے جلسوں سے ہی فرصت نہیں مل رہی لیکن اپنی دیرینہ روایت کے مطابق الزام دوسروں پر لگا رہے ہیں ۔
انسان جب خود کچھ نہیں کرتا تو پھر ایک منفی حربہ یہ ہوتا ہے کہ دوسروں پر الزام لگا کر اپنی طرف سے توجہ ہٹا دو ۔ گذشتہ ہفتہ دس دن سے ایک آڈیو پیغام سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہا ہے کہ جس میں اہل پنجاب کو خبردار کیا جا رہا ہے کہ وہ محتاط ہو جائیں اندرون سندھ سے چوروں اور ڈاکوئوں کے گروہ پنجاب میں پہنچ چکے ہیں ۔ جب ہم نے مختلف لوگوں سے پوچھا کہ کیا آپ
کے پاس اس حوالے سے کوئی شواہد ہیں یا کسی نے پنجاب کے شہروں میں اجنبی لوگوں کو دیکھا یا کیا گذشتہ چند دنوں میں پنجاب کے شہروں میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا ہے تو اس پر کوئی جواب نہیں بلکہ مکمل خاموشی ۔جو لوگ اس طرح کی منفی خبریں پھیلا کر ملک میں لسانی اکائیوں کے درمیان نفرت پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیںان کی ہر سطح پر مذمت ہونی چاہئے ۔ اس کے علاوہ کچھ وڈیوز کو یہ کہہ کر سوشل میڈیا پر وائرل کیا گیا کہ یہ کراچی کی ہیںجن میں ایک میں قتل اور ایک میں ڈکیتی کی واردات کو دکھا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ سندھ میں جرائم کی شرح بہت بڑھ چکی ہے اور یہ سب سر عام ہو رہا ہے لیکن کوئی روکنے والا نہیں ۔ ان وڈیوز کی جب تحقیق کی گئی تو پتا چلا کہ ایک لاطینی امریکہ کے کسی ملک کی ہے جبکہ دوسری فیصل آباد کی ہے ۔ یہ ہے سیلابی صورت حال میں ہمارے اپنوں کا کردار اور ان اپنوں کا کردار کہ خود کچھ نہیں کرتے لیکن مگر مچھ کے آنسو بہا کر دوسروں پر الزام تراشی کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔ اسے کہتے ہیں کہ دوسروں کو نصیحت خود میاں فضیحت ۔
صورت حال کی سنگینی کے باوجود بھی ہم اپنی کرتوتوں سے باز نہیں آ رہے اور ایک گروہ جس کو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ’’ کام کے نہ کاج کے دشمن سماج کے‘‘ ۔ تو سیلاب میں کچھ لوگوں نے کیا کرایا تو کچھ نہیں لیکن دوسروں پر کیچڑ اچھالنے کا کام خوب کیا ان سے تو وہ غیر اچھے کہ جن کو ہماری فکر مارے جا رہی ہے ۔ یہاں تک پروپیگنڈا کیا گیا کہ دفتر میں ہمارے انتہائی قزیبی عزیز ہم سے دریافت کرنے لگے کہ سنا ہے متحدہ عرب امارات والوں نے موجودہ حکومت کو امداد دینے سے انکار کر دیا ہے ۔اتفاق سے کمپیوٹر پر ایک ٹی وی چینل پر خبریں آ رہی تھیں ابھی ان کی زبان سے یہ بات بمشکل نکلی ہو گی کہ خبر آ ئی کہ متحدہ عرب امارات کا 21واں جہاز امدادی سامان لے کر کراچی ایئر پورٹ پہنچ گیا ۔اندازہ کریں کہ منفی پروپیگنڈا کا اثر کس قدر ہوتا ہے کہ کھلی حقیقتوں کو بھی مشکوک بنا دیتا ہے ۔ اس ملک کی نائو جن کے ہاتھوں میں ہے ان سے گذارش ہے کہ بہت ہو گیا اس بار اگر نائو کا رخ غلط سمت میں موڑا گیا تو پھر یاد رکھیں کہ نائو کو بحفاظت واپسی کا راستہ ملنا بہت مشکل ہو جائے گا ۔