ایک طرف ملک ٹوٹ چکا تھا اور دوسری جانب جنرل یحییٰ خان نہایت اطمینان سے اگلے آئین کی تیاری میں لگا تھا تاکہ نئے سرے سے حکومت کرسکے۔ بالکل ویسے ہی جیسے جنرل مشرف ملک کو شدید خلفشار اور دھماکوں سے دوچار کرکے 2008 میں ق لیگ کو پھر سے انتخابات جتوانے کا منصوبہ بنا کر اپنے غیر قانونی اور غیر آئینی اقتدار کو طول دینے پر تلے ہوئے تھے۔ آج بھی کچھ ایسے ہی مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ پاکستان صرف مالی مشکلات کا شکار ہی نہیں، داخلی اور خارجی محاذوں پر بھی مسائل ہی مسائل ہیں۔ افسوسناک بات تو یہ ہے کہ اتنا سب کچھ ہو جانے کے باوجود حکومت کو صرف اس بات کی فکر ہے کہ اگلے عام انتخابات کو کیسے چرانا ہے۔ ملک کی تاریخ میں عوام پہلے کبھی اس قدر مصائب و مشکلات سے دوچار نہیں ہوئے جتنااب ہر کسی کوسامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت رہی ہو یا پھر مسلم لیگ ن برسراقتدار ہو سب نے دیکھا کہ اپنے ہی اداروں نے زچ کئے رکھا اور تگنی کا ناچ نچوایا۔ اس کے باوجود ملازمتیں بھی دستیاب تھیں، کاروبار بھی چل رہے تھے، معاوضوں میں اضافہ بھی ہورہا تھا۔ مہنگائی ضرور مگر جو حال اب ہے پہلے کبھی نہ تھے۔ پی ٹی آئی کی حکومت اداروں کی مکمل پشت پناہی اور آشیر باد سے قائم ہوئی اور آج تک ایک ہی پیج ہے۔ اس سے پچھلی حکومت نہ صرف ملک کو بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے مکمل طور پر نجات دلوا کر گئی بلکہ تاریخ کا سب سے بڑا انفراسٹرکچر بھی قابل ذکر حد تک کھڑا کردیا۔ سی پیک پر کام تسلی بخش طریقے سے جاری تھا۔ آج سب الٹ پلٹ ہے۔ سابق ڈپٹی چیئرمین سینٹ سلیم مانڈی والا نے ایک سرکاری اجلاس میں انکشاف کیا کہ چینی سفیر انہیں براہ راست شکوہ کرچکے ہیں کہ پچھلے تین سالوں سے سی پیک پر کام بند پڑا ہے۔ حکومت کیسے چل رہی ہے اس کے بارے میں کسی نے سوشل میڈیا پر تین نکات پوسٹ کیے جو صورتحال کی بھرپور عکاسی کر تے ہیں، کہا جاتا ہے کہ سارا نظام جھوٹ، لوٹ اور بوٹ کے بل پر چل رہا ہے۔ کسی کو شک نہیں کہ بطور قوم ہمارے پیچھے رہ جانے کی ایک بہت بڑی اور بنیادی وجہ ہر سانحے اور ہر واقعے کے بارے میں جھوٹ بولنا ہے۔ اپنی کوتاہیاں اور قصور دوسروں پر ڈالنے کے لیے انہیں فوری طور ملک دشمن اور غدار قرار دے دیا جاتا ہے۔ پی ٹی آئی کے دور میں تو غداری کے سرٹیفیکیٹ جاری کرنے کی فیکٹریاں ہی لگا دی گئی ہیں۔ وزیر، مشیر، معاون خصوصی، لاتعداد ترجمان،“ محب وطن میڈیا کے جانباز“ دن رات اسی کام پر لگے ہیں۔ جب کسی سے اس کی کارکردگی کے بارے میں پوچھو تو اس کے منہ سے مغلظات جھڑنا شروع ہو جاتی ہیں۔ چمچے چانٹے چیخنا شروع کردیتے ہیں کہ قومی مفاد کے منافی باتیں کی جارہی ہیں۔ طاقتور شخصیات کے مٹھی بھر گروہ نے طے کر رکھا ہے کہ وہ جو کچھ بھی کریں اسے عظیم کارنامہ بنا کر پیش کیا جائے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر ہڑپ کر جائے، سی پیک ٹھپ ہو جائے، مالی بحران ملک و قوم کے لیے سنگین خطرات پیدا کرنے کی سطح تک پہنچ جائے، بس کوئی سوال نہیں کرنا۔ بلکہ صرف مثبت خبریں دینا اور سننا ہے۔ تازہ مثال ہی دیکھ لیں اوگرا نے خوب سوچ سمجھ کر پٹرول فی لٹر ایک روپیہ مہنگا کرنے کی سمری بھجوائی مگر وزارت خزانہ نے ریٹ پانچ روپے فی لٹر بڑھا دیا۔اس حرکت کا صرف ایک ہی مطلب ہے کہ بڑی سرکار کی جیب اس حد تک خالی ہوچکی کہ اب معمول کے اخراجات کے لیے بھی پیسے باقی نہیں رہے۔میڈیا کو تو ویسے ہی دبا دیا گیا ہے مگر اب کوئی حقائق کے ساتھ اس مسئلے کو اجاگر کرے گا تو کہا جائے گا کہ یہ کسی دشمن کا ایجنٹ ہے اور مایوسی پھیلا رہا ہے۔ اس حکومت کے آنے کے بعد ایسے واقعات کا ایک تسلسل ہے جو اس امر کا متقاضی ہے کہ ذمہ داروں کو کٹہرے میں کھڑے کرکے پوچھا
جائے کہ آخر ملک کی ساکھ کو پہنچنے والے نقصان پر قصور وار کون ہے۔ صرف یہ کہہ دینا کہ ہمارے خلاف سازش کی گئی نہایت بودی دلیل ہے۔ اگر سازش ہوئی بھی ہے تو آپ کیا سو رہے تھے۔ اس سازش کو ناکام کس نے بنانا تھا؟ کرکٹ کے حوالے پیش آنے والی افسوس ناک صورتحال کو ہی دیکھ لیں۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم نے میچ سے صرف آدھا گھنٹہ پہلے سیکورٹی تھریٹ کا بہانہ بنا کر دورہ منسوخ کردیا۔ اس کی پیروی کرتے ہوئے انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم نے بھی پاکستان آکر کھیلنے سے انکار کردیا۔ ظاہر ہے ان ٹیموں نے جو عذر بھی پیش کیا ہمیں اس کا بروقت اندازہ لگاتے ہوئے تدارک کرنا چاہیے تھا۔ ہمارا المیہ یہ بھی ہے کہ بڑبولے وزیر صرف سیاسی پوائنٹ سکورنگ معاملات کو اور بگاڑ دیتے ہیں۔ اب شیخ رشید کو ہی دیکھ لیں فرما رہے ہیں کہ دستانے پہنے ہاتھوں نے کرکٹ ٹیموں کے دورے ملتوی کرائے۔ فواد چودھری ایک قدم اور آگے گئے اور دعویٰ کیا کہ سر اٹھا کر جینے کی قیمت چکانا پڑتی ہے۔ امریکہ کو not absolutely کہنے پر ہمیں اس صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اسی حکومت کے کئی ذمہ دار خود ہی اعتراف کرچکے ہیں کہ امریکہ نے فوجی اڈے مانگے ہی نہیں۔ ادھر خود نیوزی لینڈ کی حکومت کا یہ کہنا ہے کہ انہیں یہ اطلاع ملی تھی کہ ان کی ٹیم کو ہوٹل سے سٹیڈیم جاتے وقت حملے کا نشانہ بنایا جائے گا۔عالمی میڈیا میں یہ خبریں ہیں کہ نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کا دورہ پانچ ملکی انٹیلی جنس اتحاد کی اطلاع پر ختم کیا گیا۔ امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا پر مشتمل یہ انٹیلی جنس اتحاد“ فائیو آئیز”کے نام سے معروف ہے۔ نیوزی لینڈ کے حکام نے یہ بھی کہا کہ ممکنہ دہشت گردی کی اطلاعات ملنے کے بعد انہوں نے اپنے ذرائع سے بھی اس کی تصدیق کی۔ اسی لیے جب وزیر اعظم عمران خان نے نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کو فون کرکے کہا کہ ہمارے سیکورٹی ادارے نمبر ون ہیں، کوئی خطرہ نہیں اس لیے دورہ منسوخ نہ کیا جائے تو سنی ان سنی کرکے ٹیم واپس بلا لی گئی۔ ہماری حکومت ایک طرف تو امریکہ اور مغرب کی سازش کی مذمت کررہی ہے تو دوسری جانب یہ نہیں بتا رہی کہ آخر دہشت گرد حملے کے دو ماہ سے زیادہ عرصے کے بعد بھی چینی کمپنی نے داسو ڈیم پر کام شروع کیوں نہیں کیا۔ اگر اسکی وجہ سیکیورٹی تحفظات نہیں تو اور کیا ہے؟ اور اگر ایسا ہی ہے تو اس کے ذمہ دار کون ہیں۔ ان کا بھی کوئی احتساب یا پوچھ گچھ ہوگی یا پھر ان سب پر“ مثبت“ خبروں کی سیاہی پھیر دی جائے گی۔ لیکن سوال تو یہ بھی ہے کہ احتساب ہوگا کہاں؟ چیف جسٹس کی سرابرہی میں سپریم کورٹ کا فل بنچ کب کا بلدیاتی ادارے بحال کرچکا ادھر حکومت ہے ماننے سے صاف انکاری ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ نیب یکطرفہ احتساب کرکے مقتدر حلقوں کے مقاصد پورے کر رہا ہے۔ اس کا سب سے بڑا نشانہ بننے والی مسلم لیگ ن میں اتنی جرات بھی نہیں کہ کھل کر بتا سکے کہ نیب کو چلا کون رہا ہے۔ نیب، نیازی گٹھ جوڑ کی فضول گردان کرکے وقت گزاری کی جارہی ہے۔ آف دی ریکارڈ گفتگو میں صرف مسلم لیگ ن ہی نہیں، مقدمات بھگتنے والے دیگر افراد بتاتے رہے ہیں کہ نیب والے خود کہتے ہیں کہ ان کا سسٹم کسی اور“ مقام“ سے چلایا جارہا ہے۔ ہماری ریاستی پالیسی وزیر اعظم عمران خان کو عالمی لیڈر ثابت کرنا ہے، صدر عارف علوی نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے دنیا کو پیشکش کی کہ وہ عمران خان کی مرید بن جائے۔ افسوس کوئی ایک بھی پیر صاحب کی بیعت کرنے کے لیے راضی نہیں ہوا۔ الٹا سی این این پر ایک خاتون تجزیہ کار نے امریکی صدر جوبائیڈن کی جانب سے پاکستانی وزیر اعظم کو فون نہ کرنے سے متعلق سوال کے جواب میں یہاں تک کہہ دیا کہ وزیر اعظم عمران خان کی حیثیت اسلام آباد کے میئر سے زیادہ نہیں۔ امریکی حکام نے جن سے رابطہ کرنا ہو کر لیتے ہیں۔ ویسے ایسا تبصرہ پہلی بار سامنے نہیں آیا۔ عالمی میڈیا میں اس حوالے سے ذکر ہوتا رہتا ہے۔ ایک طرف تو ملک کے اندرونی اور بیرونی حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں۔ دوسری جانب حکمرانوں کو رتی برابر پرواہ نہیں، غیبی کامیابیوں کے ڈھول پیٹے جارہے ہیں۔ الیکڑانک ووٹنگ مشینوں اور اوور سیز پاکستانیوں کو ووٹ کی اجازت دینے کے معاملات ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بن کر غبار کی طرح ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ یہ بات بھی سمجھ سے باہر ہے کہ جو الیکشن کمیشن بالکل سیدھے کیس میں فیصل ووڈا کو نا اہل نہیں کرسکا۔ پی ٹی آئی فارن فنڈنگ میں مقدمہ دبا کر بیٹھا ہے۔ جس نے مسلم لیگ ن کے پرویز رشید نے سینٹ کا الیکشن پھر سے لڑنا چاہا تو فوری طور کاغذات مسترد کردئیے۔ آخر اب اتنا تگڑا کیوں ہوگیا ہے۔ یہ نورا کشتی ہو یا حقیقی کشمکش،طے ہے کہ ملک میں مسائل ہی مسائل ہیں۔ اپوزیشن کو عارضی چھوٹ دینے، رائے عامہ کا حقیقی جائزہ لینے یا پھر ممکنہ احتجاج کو ٹالنے کے لیے کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات میں مداخلت روکی گئی تو پنجاب میں پی ٹی آئی کا صفایا ہوگیا۔ان نتائج پر مسلم لیگ ن اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے عام انتخابات کے بارے میں اندازے لگانا ممکن نہیں۔ضمنی الیکشن جیتے جائیں یا بڑے بڑے جلسے کرکے گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں چند ہی نشستیں حاصل کی جا سکیں۔ ان کے ٹریک ریکارڈ سے واضح ہے کہ جہاں جتنی ضرورت محسوس کی جائے گی وہاں اتنی مداخلت ہوگی۔حکمران طبقات کے موج میلے جاری ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ اس میں کسی طرح کا خلل آئے۔ وہ یہ سوچ رکھتے ہیں کہ بحران تو آتے ہی رہتے ہیں۔پسندیدہ نظام قائم رہنا چاہیے۔اگلے انتخابات کو ہر صورت میں“ فتح“ کرنا سب سے بڑا مشن ہے۔ ایسے ماحول میں جنرل یحیی خان کی یاد تو آئے گی۔
یحییٰ خان کی یاد
10:46 AM, 24 Sep, 2021