اسلام آباد: جعلی بینک اکاؤنٹس سے متعلق کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی جس میں جے آئی ٹی نے پہلی پیشرفت رپورٹ سیل شدہ لفافے میں سپریم کورٹ میں جمع کرا دی۔
جے آئی ٹی کے سربراہ احسان صادق نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ وقت کی کمی کے باعث مشکلات کا سامنا رہا۔ اب تک کی ہونے والی تحقیقات کا جائزہ لیا اور مزید 33 مشکوک اکاؤنٹس کا سراغ لگایا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ نئے سامنے آنے والے اکاؤنٹس کی اسکروٹنی جاری ہے۔ اب تک کی تحقیقات میں 334 ملوث افراد سامنے آئے ہیں اور تمام افراد اکاؤنٹس میں ٹرانزیکشنر کرتے رہے۔ جعلی اکاؤنٹس کے ساتھ 210 کمپنیوں کے روابط رہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ کیا ابھی لانچز کا معلوم نہیں ہوا؟۔ ذرا لانچ کے ذریعے رقم منتقلی کا بھی پتہ کریں۔ جے آئی ٹی سربراہ احسان صادق نے جواب دیا کہ ابھی لانچ تک نہیں پہنچے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بڑے اعتماد کے ساتھ جے آئی ٹی کو ذمہ داری دی ہے۔ اکائونٹس کا مقصد یہی ہے کہ چوری اور حرام کے پیسے کو جائز بنایا جائے جبکہ ایک اہم کردار عارف خان بھی ہے۔
سربراہ جے آئی ٹی احسان صادق نے کہا کہ عارف خان بیرون ملک ہے اور کس ملک میں ہے ابھی ظاہر نہیں کر سکتا جو ملزمان باہر ہیں انہیں واپس لانے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ملزمان کے ریڈ وارنٹ کیلئے اقدامات کر رہے ہیں۔ تحقیقات کیلئے نیب، ایف بی آر، ایس ای سی پی اور اسٹیٹ بینک سے ریکارڈ لے رہے ہیں اور جعلی اکاؤنٹس میں کنٹریکٹرز نے رقم جمع کرائی ہے
جسٹس عمر عطا بندیال نے ان سے استفسار کیا کہ کیا رقم کراس چیک کے ذریعے اکاؤنٹس میں جمع ہوئی؟۔سربراہ جے آئی ٹی نے جواب دیا کہ جعلی اکاؤنٹس کے معاملے کا جائزہ لینا پڑے گا۔ کمپینوں میں 47 کا براہ راست تعلق اومنی گروپ سے ہے۔